Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

313 - 756
تمہید سوال وجواب آئندہ :
	 فرمان شریعت ایک عالم کارسالہ ہے جس میں خطبہ کے عربی زبان ہونے کی ضرورت اور غیر عربی میں ہونے کی کراہت روایات فقہیہ سے ثابت کی گئی ہے اس پر احقر کی بھی تفریط تھی ایک مقام سے احقر کے پاس ایک خط آیا جس میں دو سوال تھے ایک میں حوالہ روایات کے متعلق خلط کا اثبات اور دوسر میں غیر عربی سے کراہت کی نفی کی گئی ہے۔ احقر نے اس خط کا جواب لکھا یہ سب ذیلمین منقول ہے۔ 
سوال اول:
	 اس کا خلاڈہ تمہید اول میں لکھا جا چکا ہے اور چونکہ جواب میں بھی اس سے محض اجمالی تعرض ہے اس لئے اس سوال کو بعینہ نقل نہیں کیا گیا۔
سوال ثانی:
	صاحبین نے عاجز عن العربیہ کو معذور اور عاجز قرار دیا ہے اور اس لئے غیر عربی والوں کو غیر عربی میں خطبہ پڑھنا جائز ہوگا یا نہیں کیونکہ تکبیر تحریمہ کے متعلق قاضیخان نے لکھا ہے کہ اگر عربی نہیں جانتا ہے تو فارسی میں نماز کو شروع کے گا ورنہ غیر عربی میں نہیں شروع کر سکتا بالکل یہ ی اختلاف بقول درِ مختار خطبہ میں بھی ہے اس لئے عربی نہ جاننے والئے کیا صاحبین کے نزدیک غیر عربی خطبہ نہیں پڑھ سکتے اور اگر بکراہت جائز ہے تو مکروہ تنزیہی مراد ہے یا مکروہ تحریمی ۔ کیا وہ مکروہ تنزیہی بحالتِ موجود نہ سمجھ میں آنے کے عذر سے معاف نہیں ہو سکتا اور زمانہ کی ضرورت ہم کو شرعی ضروریات کے لئے اردو میں خطبہ کو جائز قرار نہیں دیتے حضرت امام غزالی رحمہ اللہ نے احیاء العلوم میں آداب القراء ۃ میںحضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقولہ پیش فرمایا ہے کہ جو عبادت بے سمجھے ہو اس میں برکت نہیں ہوتی اور جو تلاوت بلا تامل ہو وہ تلاوت نہیں اس لئے اگر کوئی شخص خطبہ شرعیہ کے حدود میں رہ کر اردو میں خطبہ پڑھتا ہے تو وہ مشاب ہوگا یا نہیں۔ نیت اس کی یہ ہے کہ عبادت بے سمجھے نہ ہونا چاہئے خصوصاً خطبہ جو تذکیر کے لئے بھی ہو جس میں سامعین کو سنانا مقصود ہو۔ 
الجواب:
	 تنبیہات سے ممنون ہوا جزا کم اللہ تعالیٰ ۔ غالباً اکثر اہل علم کا تصدیق رسائل کے باب میںیہی معمول ہے کہ نفس مسئلہ کا توافق پیش نظر رہتا ہے اور روایات کو بنا براعتماد صاحب رسالہ ماخذ پر منطبق نہیں کیا جاتا چنانچہ اس وقت آپ کی تحریر کی روایات بھی اسی اعتماد کی بناء پر تطبیق کا اہتمام نہیں کیا۔ اگر یہ کوتاہی ہے تو میں اپنی کوتاہی کا مقرہوں بلکہ اس کیاشاعت کی اجاازت دیتا ہوں۔ البتہ نفس مسئلہ میں اب بھی میرا یہی خیال ہے اگر اس میں مجھ کو اپنی غلطی معلوم ہو جائے گی حسبِ معمول رجوع کر لوں گا۔ یہ تو سوال کا جواب ہے ۔ باقی سوال ثانی کے متعلق عرض ہے کہ کلام غیر عاجز میں ہے اس کے لئے جواز یعنی صحبت بلا کراہت نہیں اور عاجز کے معنی ہیں پڑھنے سے عاجز نہ کہ سمجھنے سے کما سیاتی۔ رہا یہ امر کہ کون سی کراہت ہے سو تنزیہی بھی عوارض سے تحریمی ہو سکتی ہے۔ مسئلہ تکلم فیھا میں بڑا عارض اس وقت میں یہیہ کہ سنت پر اس مکروہ کو ترجیح دی جانے لگی۔ اس لئے تغییر مشروع کے سبب کراہت تحریمہ کا حکم بعید نہیں اور یہ عجز اور عدمِ عجز عن القرأۃ ہے نہ کہ عن الفہم ۔ چنانچہ کسی سے بھی یہ احتمال اخیر منقول نہیں اور قیاس ایک کا دوسر پر ہمارا منصب نہیں اور امام غزالی رحمہ اللہ سے جو قول نقل کیا گیا یہاں سمجھنے سے مراد توجہ ہے چنانچہ اس قول کی عبارت اس عبادت کوبھی شامل ہے جس میںکوئی قراء ۃ نہیں ورنہ اگر ترجمہ مراد ہو تو کیا تلاوت میں بھی ترجمہ پڑھنا اصل قرآن 
Flag Counter