Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

312 - 756
ہی ہم اپنے عقیدہ کو اس سے بری الذمہ ٹھہراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نہیںہمارے افعال کے ہم خود مختار اورذمہ دار ہیں جیسا چاہیں کر گذریں اس حالت میں خدا کو ہماری افعال کے علم سے نعوذ باللہ عاری ماننا پڑتا ہے علاوہ ازیں خدا کو عالم الغیب ما نکرہم دعا مانگنے کو بھی بیکار کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ ہر کام کو اسی طرح ہونا چاہئے جیسا کہ اس کے متعلق خدا تعالیٰ کو علم ہو چکا ہے معاذ اللہ وہ خود بھی اپنے علم کے خلاف جو کہ ابھی سے مکمل ہے آئندہ کچھ نہیں کر سکتا کییونکہ علم غلط ٹھہرتا ہے۔ بینوا توجروا
الجواب:
	 یہ یقینی ہے کہ وجود اکتیار کا بدیہی بلکہ حسی ومشاہد ہے اور یقینی بدیہی وحسی کی مصاومت اگر دلیل غیر یقنی کے ساتھ ہو تو بداہت وحس کی نفی نہ کریں گے بلکہ دلیل کو مخدوش کہیں گے گو تعیین اس خدشہ کی نہ کرسکیں مثلاً اگر دلیل ریاضی سے معلوم ہو کہ فلاں تاریخ فلاں وقت فلاں مقام میںپورے آفتاب کو کسوف ہوگا لیکن مشاہدہ سے کسوف کا عدم وقوع ثابت ہوا تو مشاہدہ سے کسوف کا عدم وقوع ثابت ہوا تو مشاہدہ کو غلط نہ کہا جائے گا بلکہ حساب میں غلطی ہو جانے کا حکم کریں گے گو یہ تعیین نہ ہو کسے کہ کہاں غلطی ہوئی ہے اور کیا غلطی ہوئی ہے۔ اسی طرح یہاں جب دلیل نافی ہی اختیار کی تو دلیل ہی کوجہنم سمجھیں گے خواہ وہ غلطی کچھ ہی ہو۔ مثلاً یہاں اس دلیل میں یہ غلطی ہے کہ علم باری جو واقعہ قتل کے ساتھ متعلق ہوا ہے تو اس قید کے ساتھ متعلق ہوا ہے کہ یہ قتل باختیار قاتل ہوگا تو اس سے تو وجود اختیار کا اور مؤکد ہوگیانہ کہ معدوم ورنہ خلاف علم الٰہی لازم آئے گا۔ اور اگر اس اختیار کی کنہ اور اسکی وجہ ارتباط بالقدیم کی تفتیش کر کے اسی اشکال کی نفی اختیار کا اعادہ کی اجاائے تو ایسا اشکا جبر کی کنہ اور اس کے درجہ ارتباط کی تفتیش کرنے سے بھی ہوتا ہے جس سے جبر کی بھی نفی ہوتی ہے۔ تقریر اس کی یہ ہے کہ اگر تعلق علم وامتناع خلاف علم سے جبر لازم آتا ہے تو ظاہر ہے کہ علم کا تعلق معدوم محض سے تو ہو نہیں سکتا بلکہ وہ عقلاً موقوف ہے وجود معلوم پر اور اس کا وجود اگر بلا ارادہ ہے تو اس سے معلوم کاقدم لازم آتا ہے اور وہ بالمشاہدہ باطل ہے اور اگر ارادہ سے ہے تو ارادہ میں علم شرط ہے تو علم موقوف ہوا علم پر اور یہ دور ہے اور نیز  علم مستلزم جبر ہے جیسا کہ سوال میں کہا گیا اور ارادہ مستلزم اختیار ہے جیسا ارادہ کی حقیقت سے ظاہر ہے یعنی تخصیص ما شاء لما شاء متی شاء اور یہ اجتماع متنافیین سے اور یہ دور اور جمع لازم آیا ہے علم اور ارادہ سے تو علم وارادہ منفی ہوں گے اور علم ہی مقتضی تھا جبر کو جب مقتضی منفی ہوا تو مقتضیٰ یعنی جبر بھی منفی ہوگا تو اس انتفاء میں اختیار کی کیا تخصیص ہے جبر بھی منفی ہوگیا اس لئے ان سب اشکالات سے نجات یہی ہی کہ جبر واختیار کی کنہ اور وجہ ارتباط کی تفتیش نہ کی جائے اور عجب نہیں کہ شارع علیہ والسلام نے ایس لئے اس مسئلہ میں خوض کرنے سے منع فرمایا ۔ واللہ اعلم  ۳رمضان ۱۳۴۶؁ھ
نواسی ویں حکمت 
رسالۃ القاء السکینۃ فی تحقیق ابداء الزینہ
اس رسالہ میں شرعی پردہ کی تحقیق ہے۔ یہ رسالہ کتاب ہذا کے صفحہ ۵۱۱سے شروع ہوا ہی اور صفحہ ۲۲۵پر ختم ہوگیا ہے۔ 
نئے ویں حکمت 
حکم خطبہ در غیر عربی

Flag Counter