Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

311 - 756
 	کیا فرماتے ہیں علمائے دین وشرعِ متین درباب اس مسئلہ میںکہ مسمریزم کا سیکھنا اور اس پر عمل کرنا اور یقین کرنا مسلمانوں کے واسطے کیا ہی بموجب شرع شریف جائز ہے یا نا ئز ہے۔ اور ایک میز تین پاؤ کی بچھا کر مردہ روحوں کو بلا کر سوال وجواب کرتے ہیںاور روحوں سے دریافت کرکے بتلاتے ہیںکہ تمہارا کام ہوگا یا نہیں ہوگا اسپر یقین کرنا مسلمانوں کو کیسا ہے۔ 
الجواب:
	اول مسمریزم کی حقیقت سمجھنا چاہئے پھر حکم سمجھنے میں آسانی ہو جائے گی ۔ حقیقت اس عمل کی یہ ہے کہ قوت نفسانیہ کے ذریعہ سے بعض افعال کا صادر کرنا جیسے اکثر افعال قوی بدنیہ کے ذریعہ سے صادر کیے جاتے ہیں۔ پس قوۃ نفسانیہ بھی مثل قوی بدنیہ کے ایک آلہ ہی صدور افعال کا اور حکم اس کا یہ ہے کہ جو افعال فی نفسہا مباح ہیں ان کا صادر کرنا بھی اس قوت سے جائز ہے اور جو افعال غیر مباح ہیں ان کا صادر کرنا بھی ناجائز ۔ مثلاً جس شخص پر اپنا قرض واجب ہوا وہ وسعت بھی رکھتا ہو اس قوت سے اس کو مجبور کر کے اپنا حق وصول کرلینا جائز ہے اور جس شخص پر جو حق واجب نہ ہو جیسے چندہ دینا یا کسی عورت کا کسی شخص سے نکاح کر لینا اس کو مغلوب کرکے اپنا مقصود حاصل کرلینا حرام ہے وعلیٰ ہذا القیاس سائر الافعال یہ تو اس کا حکم تھا فی نفسہ اور ایک حکم ہے باعتبار عارض کے کہ اگر اس میں کوئی مفسدہ خارج سے منضم ہو جائے تو اس مفسدہ کی وجہ سے بھی اس میں ممانعت عارض ہو جائے گی مثلاً اس کو ذریعہ کشف واقعات کا خواہ ماضیہ ہوں یاحال یا مستقبلہ بنانا جس پر کوئی دلیل شرعی نہیں مثلا چور کا دریافت کرنا یا کہ مردہ کا حال پوچھنا یا کسی کام کا انجام پوچھنایا اعتقاد حضور ارواح کا کرنا جیسا سوال میں مذکور ہے کہ یہ سب محض کذب وزور وتلبیس وغرورہے جن میں خود اکثر عمل کرنے والئے مبتلائے جہل ہیں اور اسی جکہل پر ان کی تصنیفات اس فنمیں مبنی ہیں اور بعضے دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ مسمریزم سے ان چیزوں کا کوئی تعلق نہیں اوراگربالفرض ہوتا بھی تب بھی مثل کہانت وعرافت ونجوم کے اس سے کام لینا اور اس پر اعتقاد کرنا حرام ہوتا چونکہ احقر کو اس عمل کا خود تجربہ ہے اس لئے تحقیق مذکور میں کچھ تردد نہیں۔ ۲۵رجب ۱۳۴۶؁ھ
اٹھاسی ویں حکمت
 جواب اشکالات بر مسئلہ تقدیر
سوال:
	 براہِ عنایت مسئلہ ذیل پر اپنی قیمتی رائے کا اظہار فرما کر مشکور فرمائیں کیونکہ یہ مسئلہ عرصہ سے مجھے اور میرے احباب کو پریشن کیے ہوئے ہے میرا خیال ہے کہ آپ کا اس مسئلہ پر روشنی ڈالنا صرف میرے لئے ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں متعدد متفکر دماغوں کے لئے باعثِ تسکین ہوگا ہمارا ایمان ہے کہ خدا تعالیٰ علیہم کل اور عالم الغیب ہے اس کا عالم الغیب ہونا اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ اسے مستقبل کے ہر چھوٹے سے چھوٹے واقعہ کا علم حاصل ہے لہٰذا ہر کام کے لئے ایک طریق کار قبل از وقت مقرر ہوگیا پھر اگر زید  نے بکر کے قتل کا ارادہ کیات تو اللہ تعالیٰ کو اس کی بھی خبر تھی اور اس نے بکر کو قبل کیا وہ بھی کداوند کریم کے علم میں تھا۔ یعنی اسے معلوم تھا کہ زید کو بکر قتل کرے گا۔ اسی طرح اس کام کو ہونا چاہئے تھا وورنہ علم الٰہی باطل ٹھہرتا جب ہم خدا تعالیٰ کے اس علم غیب کو ہر انسان کے مستقبل پر منضبط کرتے ہیں تو ہمیں انسان کو مجبور محض ماننا پڑتا ہے اور خدا تعالیٰ کے عالم الغیب ہونے کی صفت پر ایمان رکھنا فیٹلزم کو ماننے کا مترادف ٹھہرتا ہے اب اس مذموم فیٹلزم کانام سنتے 
Flag Counter