Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

309 - 756
لیکن تھوڑا خلجان اس فرق میں باقی رہ گیا ہے۔ جو حضرت نے جملہ معارف ومزامیر اور گرامو فون کے درمیان فرمایا ہے وہ یہ کہ گراموفون کی صوت بھی بخصوصہ مقصود معلوم ہوتی ہے (کما فی سائر المعارف) اس کی صوت میں ایک قسم کی گونج پیدا ہو کر بہ نسبت سادہ استماع ایک حظ کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ بہت سے وہ آدمی کہ جن کے سامنے اگر اصل صوت اپنی اصلیت پر پیش کی جاتی تو و ہ اس پر کان نہ لاگاتے اور اس آلہ میں بند ہونے کے بعد نہایت ذوقت وشوق سے سنتے ہیں البتہ ناچ رنگ وغیرہ میں اصل محکی عنہ پر قدرت ہونے کی صورت میں اس آلہ کی طرف توجہ نہیں رہتی جس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہاں حظ صوت کیس اتھ دوسرے حظوظ نفس بھی جمع ہو جاتے ہیں ناچ رنگ اور گانے بجانے کے سوا اور چیزوں کے متعلق عام حالات پر نظر ڈالتے ہوئے یہی خیال ہوتا ہے (واللہ ورسلہ ونابہ اعلم) کہ اگر ایک طرف اصل وعظ ہوتا ہو اور دوسری طرف گراموفون میں اسی وعظ کی حکایات ہو تو بہت سے آدمی اسی طرف جھک پڑھیں گے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود اس کی صوت بخصوصہ مقصود ہے مثل سائر الملاہی والمعارف۔
(۲)
	آخر میں تنبیہ جزئی کے تحت میں جو حضرت نے ارقام فرمایا ہے کہ اگر تلہی مقصود نہ ہو تب بھی تشبہ ہے اہلِ تلہی کے ساتھ لہٰذا اجازت نہ ہوگی اس کا مقتضی بھی عموم منع معلوم ہوتا ہے کیونکہ مواعظ اور ان کے امثال جو مطلوب فی الدین ہیں ان کے ساتھ بھی تلہی اور تشبہ باہل التلہی منع کرنے کے قابل ہیں اگر چہ تلہی بالقرآن کی حدتک نہ پہنچیں اس لئے اگر کوئی شخص غرض صحیح کے ساتھ بھی سنتا ہو تب یہ تشبہ مانع جواز نہیں۔ 
(۳)
	تنبیہ کلی کے تحت میں جوارشاد فرمایا گیا ہے اس کا مقتضی بھی حالات وواقعات کو دیکھنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کے استماع سے مطلقاً منع کیا جائے کیونکہ اس کی کسی خاص صورت کی اجاازت سے ابتلاء فی المحرم کا عام طور پر قوی اندیشہ ہے جیسا کہ تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عوام میں تفصیلات وتدقیقات محفوظ نہیںرہتیں۔ الحاصل اول تو خود اس آلہ کو معارف ومزامیر کیساتھ ایک گونہ مشارکت ہے جو اصل عدم جواز کا مسبب بن سکتا ہے۔ دوسرے اگر اس سے بھی قطع نظر کی جائے اور فی نفسہ اس میں حکایات صوت کو مباح قرار دیا جائے تب بھی خارجی عوارض مثل اندیشہ ابتلاء فی المحرم اس کی ممانعت کے مقتضی ہیں۔ تیسرے اگر بلاغرض صحیح سنتا ہے تو اس کا عبث اور خلاف اولیٰ ہونا مسلم ہی ہے اور اگر غرض صحیح سے سنتا ہے یعنی ایسی چیز سنتا ہے جو مطلوب فی الدین ہے تو اس صورت میں قصد تلہی یا تشبہ بہ اہل التلہی اس کے لئے مانع ہوگا۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم ۔ یہ چند معروضات اعتماداً علی العنایات السنیہ کر دیے ہیں ورنہ جرأت نہ وہتی۔    ؎کرم ہائے تو مارا کرد گستاخ…والسلام
الجواب:
	 بعض طبائع کے اعتبار سے قصد صوت مخصوصہ کا انکار نہیں ہو سکتا مگر اس کے عموم کا دعویٰ بھی شکل ہے بعض طبائع یقیناً ایسے ہوں گے کہ اگر اصل میں کوئی حظ بھی نہ ہو تب بھی محض گونج کی سبب تبع کی طرف التفات نہ کریں۔ اور اگر طبل سحور میں بعض کے قصد تلہی سے حکم کی تعمیم مشکل ہے اور اس قصد کیاکثریت واقلیت کا مدار اجتہاد پر ہے لہٰذا اطلاق منع وتفصیل فی المنع مفتی کی رائے پر ہے اس کے علاوہ ایک امارت قریب قریب سب کے اعتبار سے عام ہے وہ یہ کہ اس آلہ کے مختلف پلیٹوں میں مختلف اصوات بند ہوتی ہیں اور ان میں سے کسی کو کوئی مطلوب ہوتی ہے کسی کو کوئی اور یہ تفاوت اصل ہی کے تابع ہے ورنہ ملا ہی کی نغمات والحان سب متقارب ہوتے ہیں اور یہ سب حکم فی نفسہ میں کلام ہے باقی 
Flag Counter