Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

308 - 756
اس حکایات سے ہی وارد نہ کی گئی ہو اس سے سے شبہ کا جواب حاصل ہوگیا۔ کیونکہ حکایات صورت حیوانیت (یعنی تصویر سے نہی وارد ہے ۔ اسی طرح حکایات صوت بواسطہ آؒات معارف ومزامیر منہی عنہ ہے فافترق المقیس عنہ ورنہ مطلق حکایات صورت تو آئینہ اور بانی میں بھی ہے۔ اور حکایات صوت گنبد کی صدا میںبھی ہے اور اس میں حرمت نہیں۔ اگر شبہ کیا جائے کہ فونو گراف میںبھی حکایات صوت بذریعہ آلات لہو محرم ہے تو وہ بھی منہی عنہ ہوئی اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ یہ غیر مسلم ہے اس لئے کہ ملا ہی محرمہ وہ ہیں جہاں خود ان ملاہی کی صوت بخصوصہ مقصود ہو۔ گو اس میں کوئی خاص لہجہ بھی منضم کر لیا جائے جیسا ہارمونیم میں ایسا انضمام ہوجاتا ہے اورگراموفون میں کود اس آلہ کی صوت بخصوصہ مقصود نہیں بلکہ مقصود اصل صوت محکی عنہ ہے جس کا اس آلہ کے ذریعہ سے محفوط کر کے اعادہ کیا جاتا ہے اور دلیل اس کی یہ ہے کہ گراموفون میں جو صوت بند کر کے پیدا کی جاتی ہے۔ اگر اصلی محکی عنہ پر قدرت ہو جائے تو پھر اس آلہ کی طرف اس وقت التفات بھی نہ کیا جائے بخلاف ہارمونیم وغیرہ کے کہ ایسے وقت بھی اس سے قطع نظر نہیں کی جاتی اور راز اس کا یہ ہے کہ گراموفون کی خصوصیت نے اس صوت میں یہ حظ نہیں بڑھا یا لہٰذا اصل کی ہوتے ہوئے اس کا قصد نہیں کی اجااتا اور ہارمونیم کی خصوصیت کو حظ خاص میں دخل ہے جو سادہ استماع میں مفقود ہے اس لئے اصل کے ہوتے ہوئے بھی اس کا قصد کیا جاتا ہے اس سے صاف ثابت ہوگیا کہ یہ ان ملاہی میںسے نہیں جن کی صوت بخصوصہا مقصود ہویت ہے اور حرمت ایسے ہی ملاہی کے اتھ مخصوص ہے کما ذکر رہا یہ شبہ کہ اس کو عرف میں باجا کہتے ہیں اول تو اطلاقات عرفیہ سے حقائق واحکام شرعیہ پر استدلال نہیں ہو سکتا پھر ممکن ہے کہ باعتبار اکثریت استعمال فی اللہو کے اس کو حرمت مطلقاً میں کوئی دخل نہیں۔ اگر یہ کہاجائے کہ علاوہ اطلاق عرفی کی خود واضع کا قصد بھی اس سے تلہی ہی جواب یہ ہے کہ اس میں واضع کا قصد مؤثر نہیں بلکہ مستعمل کے قصد کا اعتبار ہے غور فرمایا جائے کہ اگر طبل سحور یا طبل غزاہ کا جن کو فقاہ نے جائز کہا ہے واضع نے بقصد تلہی بنایا ہو مگر استعمال کرنے والا بقصد صحیح اس سے کام لئے تو کیا اس محض بنا بر نیت واضع ناجائز کہا جا سکتا ہے۔ اگر کہا جائے کہ اگر استعمال کرنے والئے کا قصد بھی تلیہ کا ہو مگر خاص انہیں ریکارڈوں کا استعمال کرے جنہیں اصوات مباحہ محفوظ ہیں تو کیا اب بھی حرمت کا حکم نہ ہوگا۔ حالانکہ قصد تلہی کا ہی جواب یہ ہے کہ ہر تلہی حرام نہیں ہوتی حدیث میں لہو میں سے تین چیزوں کا جواز کے لئے استثناء فرمایا گیا ہے اور اصل استثناء میں اتصال ہے الا بدلیل ولا دلیل اس سے معلوم ہوا کہ جس تلہی میں کوئی مفسدہ ہو وہ حرام ہے اور جس میں کوئی غرض صحیح کما فی الثلثہ المذکورۃ  وہ محمود ومطلوب ہے اور جس میں نہ کوئی مفسدہ ہو نہ غرض صحیح وہ عبث اور خلافِ اولیٰ ہے ۔ پس حکایات صوت مباح میں کوئی مفسدہ تو ہے نہیں ورنہ وہ صوت مباح ہے نہ ہوتی۔ اب دو احتمال رہ گئے اگر غرض صحیح ہے جیسے کہ محقق عالم بعید المکان کا وعظ بند ہو۔ اس کی حکایات محمود ہوگی اور اگر غرض صحیح نہیں تو عبث اور خلاف اولیٰ ہے اخیر میں ایک ضروری تنبیہ کلی بھی معروض ہے وہ یہ کہ یہ تفصیل مذکور خلو عن العوارض کی حالت میں ہے ورنہ اگر کوئی عارض موجب منع پایا جائے جیسا مباح کی اجاازت مفضی ہو جائے ابتلاء فی المحرم کی طرف تو اس صوت میں قبیح لغیرہ میں داخل ہو کر واجب المنع ہو جائے گا۔ ایک دوسری تنبیہ جزئی بھی واجب الذکر ہے جس کو احقر نے ۷جمادی الاخری ۱۳۴۶؁ھ کے فتئے میں ذکر کیا ہے وہ یہ کہ قرآن (بقصدِ تلہی) سننا اس میں اس لئے حرام ہے کہ طاعت کو آلہ تلہی بنان حرام ہے اور اگر تلہی مقصود نہ ہو تب بھی تشبہ ہے اہلِ ملہی کے ساتے لہٰذا اجاز ت نہ ہوگی جیسے مائدہ پر ظروف شربت کو بہیئت ظروف خمر رکھنے کو فقہاء نے حرام فرمایا ہے۔ ۵شعبان ۱۳۴۶؁ھ
تتمہ بالا سوال:
	 گرامو فون کے متعلق حضرت والا کی مفصل تحریر دیکھ کر اصل مسئلہ میں تقریباً شفا ہوگئی اور یہ سمجھ میں آگیا کہ حرمت کی وکئی وجہ نہیں 
Flag Counter