Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

307 - 756
	 یہ صوت جس صوت کی حکایات ہے حکم میں اسی کے تابع ہے پس اصل اگر مذموم ہے جیسے معارف و مزامیر وصوت نساء وامارد یا فحش ومعصیت اس کی حکایات بھی ایسی ہی مذموم ہے اور اگر اصل مباح ہے حکایات بھی مباح ہے۔ اور اگر اصل مباح ہے حکایات بھی مباح ہے۔ اور اگر اصل محمود ہے تو فی نفسہ تو اس کی حکایات بھی ایسی ہی ہے مگر عارض کے سبب اس میں تفصیل ہوگئی ہے وہ یہ کہ اگر اس سے تلہی مقصود ہے تو طاعت کو آلۂ تلہی بنانا حرام ہے پس قرآن وغیرہ سننا اس میں اس لئے حرام ہے اور اگر تلہی مقصود نہ ہو جیسے کوئی مضمون نافع دوسری جگہ پہنچانا ہو اور اس میں بند کر دی جائے وہ جائز ہے اور قرآن میں یہ نیت اول تو فرضی ہے اور اگر واقعی ہے تب بھی تشبہ ضرور ہے اہلِ تلہی کے ساتھ لہٰذا اجازت نہ ہوگی جیسے مائدہ پر ظروف شربت کو بہیئت ظروفِ خمر رکھنے کو فقہاء نے حرام فرمایا ہے۔ ۷جمادی الاخری  ۱۳۴۶؁ھ 
سوال:
	 یہ عریضہ اس وقت اس لئے لکھ رہا ہوں کہ گنگوہ سے جناب  حافظ محمد یعقوب صاحب کا ایک خط اس مضمون کا آیا تھا کہ گراموفون اور فوٹو گراف کا رواج آج کل گھر گھر ہو رہا ہے۔ اس کے متعلق مفصل فتویٰ کی ضرورت ہے ان کا خیال ہے کہ اس کو طبع کر ا کر تقسیم کریں۔ اس ضرورت کے لئے احقر نے جناب  کا فتویٰ امدادیہ دیکھا تو حوادث الفتاویٰ صفحہ ۷۶ میں اس کے متعلق حضرت نے کافی بحث فمرائی ہے جس کو دیکھ کر اطمینان ہوا لیکن ایک خلجان باقی رہ گیا کہ حضرت نے گراموفون کو محض ایک آلۂ حاکیہ صوت مثل دیگر آلات حاکیہ ٹیلیگراف وٹیلیفون وغیرہ قرار دے کر اس کے سننے سنانے کو اصل محکی عنہ کے تابع فرمایا ہے۔ اس میں یہ خلجان ہے کہ عام عرف وعادت اور اس کی وضع ومقصد کے لحاظ سے یہ محض آلہ حاکیہ نہیں معلوم ہوتا بلکہ من جملہ آلات تلہی وتلعب اور معارف ومزامیر کے معلوم ہوتا ہے عام طور پر زبانوں پر اس کا نام بھی باجہ پکارا جاتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس سے حکایات صوت کا کام لیا جا سکے سویہ تو کچھ نہ کچھ دو تار ستار وغیرہ میں بھی ہوتا ہے گو اتنا صاف نہ ہو اور اسی وجہ سے ہنیدی مثل مشہور ہے ’’تانت باجی راگ پایا‘‘ بالخصوص بعینہ ہوائے متکیف کا سماع لیکن بہرحال ریکارڈ لگانا اور اس پر اس کی سوئی رکھ کر کسی خاص ہوائی متکیف کا حاص کرنا یہ بھی ایک درجہ میں احداث صوت کہا سکتا ہے۔ الغرض عرف وعادت اور عام طور اس کی وضع واستعمال سے معلوم ہوتا منجملہ آلات تغنی کے ہی ٹیلیفون کی طرح آلۂ حاکیہ نہیں اس لئے اصوات مباحہ بھی اس کے اندر مباح نہ ہونا چاہئے اور یہ خیال ہوتا ہے (واللہ اعلم بالصواب) کہ عام آلات تغنی اور گراموفون میں وہی فرق ہے جو عام آلات اور تصویر کشی اور فوٹو گراف میں کیونکہ عام طور پر مصوف ایک حسبِ دل خواہ صورت کا احداث اپنی طرف سے کرتا ہے اور فوٹو گراف ایک محکی عنہ کے تابع ہوتا ہے اور اس کے عکس کو جو غیر قائم تھا مصلاحہ کے ذریعہ پائیدار بنا دیتا ہے لیکن عکس کو پائیدار بنانے ہی کا نام تصویر کشی رکھا جاتا ہے اور فوٹو گراف اور قدیم طرز کی مصوری کو برابر ناجائز قرار دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ عکس جس وقت تک عکس تھا جائز تھا اور جب بذریعہ فوٹو اس کو قائم کیاگیا تو اب یہی عکس تصویر کہلائے گا اسی طرح ایک جائز کلام جب تک اپنی اصلی صورت میں تھا وہ ایک کلام تھا کہ حسنہ حسن وقبیحہ قبیح لیکن جب اس آلہ کے ذریعہ اس کو قائم کر کے اعادہ کیا گیا تو یہی ایک تغنی وتلہب ہے امید کہ جواب باب صواب مطمئن فرمایا جائے۔
الجواب :
	شبہ کے منشا کی قابل توجہ ہونے سے دل خوش ہوا اس لئے توجہ کر کے مقام کی توضیح کرتا ہوں۔ میں نے اپنی تقریر میں اباحت حکایات پر صرف اباحت محکی عنہ سے استدلال نہیں کی ابلکہ اس میں ایک قید بھی ہے جو غایت شہرت کے سبب محتاج تصریح نہیں وہ قید یہ ہے کہ 
Flag Counter