Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

305 - 756
ـ	 صیف وشتاء کو جو احادیث میں جہنم کے دو سال سے مسبب فرمایا گیا ہے اس کی کیا توجیہ ہے ،جوا رافع اشکالات ہو۔
الجواب :
	اس باب میں جو روایات وارد ہیں ان میں سے سب سے صریح الفاظ اس روایت کے ہیں۔ 
’’	عن محمد بن ابراہیم عن ابی سلمۃ عن ابی ھریرۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال قالت النار اکل بعضی بعضاً فاذن لی اتنفس فاذن لھا بنفس نفیس فی الشتاء ونفس فی الصیف فما وجدتم من برداو زمھریر من نفس وما وجدتم من جر او حرور فمن نفس جہنم رواہ مسلم فی باب الابراد باظھر فی شدۃ الحر لمن یمضی الی جماعۃ وینالہ الحر فی طریقۃ‘‘۔
 	وفی شرحہ للنووی:
’’ قال القاضی اختلف العلماء فی معناہ فقال بعضھم ھو علی ظاھرہ وقیل بل ھو علیٰ وجہ التشبیہ والاستعارۃ والتقریب وتقریر ان شدۃ الحر تشبہ نار جہنم فاحذروہ اجتنبوا حرورہ قال والاول اظھر قلت والصواب الاول لانہ ظاھر الحدیث ولا مانع من حملہ علی حقیقۃ الخ ملخصا۔ ‘‘
	الفاظ میں غور کرنے سے ظاہر مدلول حدیث کا یہ معلوم ہوتا ہے کہ نار سے مراد علی سبیل التغلیب عام ہو اس کے دونوں طبقہ حرارت ورودت اور اکل سے مراد ہر دو طبقہ کے اجزاء کا تصادم وتزاحم اور نفس سے مراد ان دونوں اجزاء کی حرارت یا رود ت کی شدت باہر دفع ہو جانے سے اس تزاحم میں قدرے سکون ہو جانا ۔ وجہ ظہور یہ ہے کہ اگر خاص طبقہ حرارت کے دو سانس اندرونی وبیرونی مراد لئے جائیں اور شتاء کو اول کا اور صیف کو ثانی کا سبب مانا جائے تو خود اس میں تو چنداں استبعاد نہ ہوگا لیکن اندرونی سانس کو رفع شکیات میںدخل نہ ہوگا کیوں اس سے تو اجزاء کا تصادم پڑ جائے گا حالانکہ حدیث سے ہر دو سانس کا رفع شکیات میں دخل مفہوم ہوتا ہے تو اب سہل توجیہ حدیث کی جس میں حرارت وبرودت کے اسباب طبعیہ سے تعارض نہ ہو یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان اسباب طبعیہ میں جو خاصیت حروبرد کی ہے یہ مستفاد ہوجہنم کے ان دونوں طبقوں سے جس طرح نور قمر مستفاد ہوتا ہے نور شمس سے۔ پس حرارت موسمی طبقۂ حرارت جہنم کا اثر ہو تو بواسطہ اسباب طبعیہ حرارت اور برودت موسمی طبقۂ زمہریریہ جہنم کا اثر ہو بواسطہ اسباب طبعیہ برودت کے پھر حرارت وبرودت کا اختلاف شدت وخفت میں یہ دوسرے اسباب معارضہ کی قوت وضعف سے ہو کیونکہ مفرد کا اثر اور ہوتا ہے اور مجموعہ کا اور ہوجاتا ہے اور امکنہ کے اختلاف سے آثار موسمیہ کے تقدم وتأخر کا اختلاف یہ اس اثر نفیس کے جلدیا بدیر پہنچنے سے ہو جیسے نور اور صوت باجود معین وقت میں پیدا ہونے کے اسباب خارجہ سے کہیں فوراً پہنچتے ہیں کہیں بدیر۔ اب بفضلہ تعالیٰ اس پر کوئی اشکال باقی نہیں رہا اور اگر اب بھی کسی مغلوب المادہ کے جی کو نہ لگے تو اس کے لئے بجائے تکذیب حدیث کے حمل علی المجاز ہی غنیت ہے۔ اور چونکہ شتاء میں عادت بھی ہے تعجیل ظہر کیاور مستحب بھی ہے اس لئے برد جہنم سے حفاظت خود حاصل ہو جاتی تصریحاً اس پر 
Flag Counter