Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

299 - 756
ونہاراً خار الصلوۃ الخ صفحہ ۱۰۹مجموعہ فتاویٰ عزیز مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی امید کہ حضور والا صحیح واقعہ سے مطلع فرمائیں گے۔ 
الجواب:
	 مجھ کو اس مسئلہ میںدو تردد تھے ایک یہ کہ آیا ختم کا سنت مؤکدہ ہونا اصل مذہبہے یا صرف مشائخ کا قول ہے۔ مراجعت کتبِ فقیہ سے یہ ثابت ہوا کہ یہ علماء احناف میں مختلف فیہ ہے اکثر کا قول   تو تاکد ہی ہے بعض کا قول عدم تاکد بھی ہے اور منشا اختلاف کا یہ سمجھ میں آیا کہ حسن نے امام صاحب  سے اس کی سنیت کو لیا ہیمن غیر تصریح بتاکدہ اوعدمہ اکثر مشائخ نے اس کو سنت مؤکدہ سے مفسر کیا ہے اور بعض نے  تاکد کی دلیل نہ ملنے سے مطلق سنت پر محمول کیا ولو مستحباً اسی واسطے بعض متون میں اس کی سنت کو لیا ہے اور بعض میں مثل قدوری کے نہیں لیا پھر قائلین بالتاکد میں بھی متاخرین نے عذر کی حالت میں تاکد کو ساقط کر دیا ومنہ کسل القوم او نحوہ ۔ خانقاہ میں گاہ گاہ ختم نہ ہو نا اسی قول عدم تاکد پر مبنی ہے خواہ یہ عدم تاکد اصل ہے سے ہو۔ خواہ کسی عذر سے ہو۔ اور عذر ہر ایک کا جدا ہے دوسرا رردد یہ تھا اور ہے کہ قائلین بالتاکد کی دلیل کیس ہے سو اسی کو میں متعدد علماء سے استفسار کیا کرتا ہوں جس سے مقصود تافی نہیں بلکہ اس پر طلب دلیل ہے اگر اس پر بھی اعتراض ہے تو اس اعتراض کا حاصل تو یہ ہوا کہ جوامر معلوم نہ ہو اس کو طلب نہ کرنا چاہئے تو اہلِ انصاف خود ہی غور کر لیں کہ آیا دین میں طلب علمم مقصود ہے یا بقاء علی الجہل ۔ اشرف علی ۲۴ شوال ۴۳  ؁ھ
اٹھترویں حکمت 
تحقیق متعلق قبہ روضہ نبویہ دفع شبہ قبور شیخین
سوال :
	 آج اخبار الجمعیۃ میں ایک مضمون سید سلیمان صاحب ندوی کا میری نظر سے گذرا جس میں سید صاحب موصوف نے تحریر فرمایا ہے کہ نجدیوں کے دست تظلم سے بعض مزارات وموالد کی تخریب جو بعض اخابروں میں شائع کی گئی ہے اول تو وہ پایہ ثبوت کو نہیں پہنچی دوسرے مزارات وموالد مذکور اصلی نہیں بلکہ خلفائے بنی امیہ وعباسیہ کے تعمیر کردہ ہیں ان کو منہدم کرنے میں کوء مضائقہ نہیں۔ تیسرے ان مقامات پر بدعاتی رسوم جار ہیں جن انسداد ضروری ہے چوتھے ان قبول میں مساجد کے ساتھ مماثلت پائی جاتی ہے اگر یہ توض ہے تو کیا سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا قبہ شریف اس حد میں نہیں آتا اور اگر آتا ہے توکیا اس کے ساتھ بھی ایسا سلوک جائز ہے۔ جواببا صواب سیمطلع فرمایا جائے۔ 
الجواب:
	سید القبور یعنی فرسید اہل القبول صلی اللہ علیہ وسلم ما اختلف القبول والد بور کا قیاس دوسری قبور پر قیاس مع الفارق ہے۔ حدیثوں میںمنصوص ہے کہ آپ کا دفن کرنا موضع وفات ہی میں ما موربہ ہے اور موضع وفات ایک بیت تھا جو جدران وسقف پر مشتمل تھا اس سے معلوم ہوا کہآپ کی قبر شریف پر جدران وسقف کیمبنی ہونے کی اجاازت ہیاور بناء علی القبر سے جونہی آئی ہے وہ وہ ہے جہاں بناء للقبر ہو اور یہاں ایسا نہیں۔ ابرہا اس کا بقائیا ابقاء سو چونکہ بعد دفن کے خلفاء راشدی میں سے کسی نے اس بناء کے بقاء پر نکیر نہیں فرمایا بلکہ ایک موقع پر استسقاء کی ضرورت شدیدہ سے صرف سقف میں ایک روشندان کھولا گیا تھا جس سے اس بناء کیبقاء کا مشروع ہونا بھی معلوم ہوگیا اور ظاہر ہے کہ بقاء ایسی اشیاء کا مدون اہتمام ابقاء کی عادۃً ممکن نہیں اس لئے اہتمام ابقاء کی مطلوبیت بھی ثابت ہوگئی اور چونکہ عمارت کا استحکام ادخل فی الابقاء ہے اس 
Flag Counter