Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

291 - 756
	 جبکہ نقشہ نعل شریف اس درجہ واجب التعظیم قرار پائے کہ سر پر رکھ کر اس کے وسیلہ سے دعا مانگنا باعثِ حصول خیر وبرکت ہو تو دوسری صرت میںاگر کوئی مثل نقشہ نعل چرمی یا چوبی بنوا کر اتباعاً پہننا چاہے جس کا پاک وناپاک جگہ آمد ورفت میں ملوث ہونا ظاہر ہے کیا حکم رکھتا ہے۔ 
(۶)
	 اصل نعلین کے ساتھ کسی صحابیؓ رضی اللہ عنہ کیاہ معاملہ کرنا ثابت ہے جو کہ اس کی نقل کے ساتھ تجویز کیا گیا ہے بروقت جواب عریضۂ ہذا کتاب امداد الفتاویٰ جلد سوم صفحہ ایک سو چالیس مسائل شتیٰ مطبع مجتبائے دہلی اور مضمون کتاب زاد السعید متعلق نعل شریف کے تعارض کو ملاحظہ فرما لیا جائے۔ فقط۔
الجواب:	
	(فائدہ اس مسئلہ پر رسالہ اتمام المقال من بعض احکام التمثال دیکھنا چاہئے جس میں حضرت حکیم الامۃ مدظلہم اور مولانا کفایت اللہ دہلوی کی مکاتبت ہے۔ یہ رسالہ دہلی کے کتب خانہ رحیمیہ سنہری مسجد نے شائع کیا ہے۱۲)
	اس مسئلہ میں دو مقام پر کلام ہے ایک یہ کہ فی نفسہ قطع نظر عوارض سے اس تمثال کے ساتھ ایسا معاملہ کرنے کا کیا حکم ہے۔ دوسرے یہ کہ عوام کے مفاسد حالیہ یا مآلیہ محتملہ باحتمال غالب کے اعتبار سے کیا حکم ہے سو امر اول میں تفصیل یہ ہے کہ اگر دین اور عبادت سمجھ کر ایسا کیا جائے تب تو بدعت ہے کیونکہ اس کی کوئی دلیل وارد نہیں اور اگر ادب وشوق طبعی سے کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ایسے امورِ طبعیہ کے جواز کے لئے دلیل کی ضرورت نہیں خلاف دلیل  نہ ہونا کافی ہے اور جو سلف سے اس کی نظیر منقول ہے اس کا محمل یہی ادب وحب طبعی ہے جیسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
’’ ولا مسست ذکری بیمینی منذ بایعت بھا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رواہ ابن ماجہ فی باب کراھۃ مس الذکر بالیمین‘‘
	 ظاہر ہے کہ یہ رعایت بناء بر حکم شرعی نہیں ورنہ ثوب نجس کا دلک یا عصر بھی یمین سے جائز نہ ہوتا اور جیسے قاضی عیاض رحمہ اللہ نے عبد الرحمن سلمی سے احمد بن فضلویہ زاہد نمازی کا قول نقل کیا ہے :
 ما مسست القوس بیدی الا علی طہارۃ منذ بلغنی ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اخذ القوس بیدہ من فتاوی العلامۃ عبد الحی صفحہ ۳۲۲ ۔
	ظاہر ہے کہ مبنی اس کا بجز دونوں قوس میں تشابہ ہونے کے اورکیا تھا اور اس تقریر سے امداد الفتاویٰ وزاد السعید کا تعارض بھی مرتفع ہوگیا جو سوال سادس میں سائل نے لکھا ہے کہ اول میں حکم شرعی کا بیان ہے اور ثانی میں شوق کا چنانچہ خود امداد الفتاوٰی  کی اس عبارت میں شوق کی بناء پر ایسے فعل ہو جانے پر ملامت کی نفی مصرح ہے یہ تو تفصیل ہے حکم فی نفسہ کیاور امر دوم کی تحقیق یہ ہے کہ جہاں احتمال مفاسد کا غالب ہو وہاں روکا جائے گا اور واقعی اس وقت عوام کی حالت پر نظر کر کے احتیاط ہی ماسب ہے چنانچہ اسی بناء پر ہمیشہ خیال ہوتا تھا کہ زاد السعید کے مضمون کے متعلق اس پر تنبیہ کروں الحمد اللہ اس وقت اس کی توفیق ہوئی لیکن اس کے ساتھ ہی دوسری جانب میں بھی اصلاح ضروری ہے مثلاً اس تمثال کے ساتھ قصداً اہانت کا معاملہ کرنا کہ کھلی علامت ہے قساوت کی کیونکہ گو وہ اصل نہیں ہے مگر تشاکل تشابہ کے سبب جو اصل سے ملابست ومناسبت 
Flag Counter