Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

29 - 756
القرآن میں دیکھ لیجئے۔ 
۲۸؍جمادی الآخریٰ، ۱۳۳۴ھ
سوال متعلق مسئلہ بالا:
 جناب کی تحریر کے موافق اگر فنا و ہلاکت کا زمانہ نفخ صور لیا جائے تو آیات خلود جنت و نار سے ’’کل من علیہا فان وکل شی ء ہالک الا وجہہ‘‘کا تعارض دفع ہوجاتاہے ، لیکن اس میں عاجز کا ذرا سا سبہ باقی رہ گیا ہی، وہ یہ ہے کہ دونوں جملے اس میں ہیں ان کا مقتضٰی دوام و استمرار ہوا کرتا ہے اس بنا پر اگر یہ کہا جائے کہ فانی اور ہالک اسم فاعل ہیں اور استقبال کے لئے مستعمل ہیں تو اسمیت جملہ کا لحاظ کرکے یہ معنی معلوم ہوتے ہیں کہ زمانہ آئندہ میں فنا و ہلاکت استمرار و دوام ہوگا تو پھر آیات خلود سے تعارض ہوجاتا ہے اس کے علاوہ ایک شبہ یہ ہوتا ہے کہ اگر نفخ صور کے وقت ہر شے فنا ہوجائے حتی کہ بسائط بھی تو جزا و سزا کے لئے پھر مخلوق ہونے کی صورت میں یا تو اعادہ معدوم لازم آتا ہے یا جزوا و سزا مخلوق جدید کے متعلق ہوتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ شرح عقائد کا جواب اجزاء اصلیہ و فضلیہ نکال کر اس بنا پر مبنی معلوم ہوتا ہے کہ روح کے لئے فنا نہ ہو صرف جسم فنا ہو یعنی اس کے اجزا منتشر ہوجاویں غرض کہ وہ حشر اجساد پر اعتراض کو دفع کرتا ہے۔ بسائط (مثلاً روح بنابر مذہب محققین و ذرات بسیطہ مادہ) کے اعدام و اعادہ پر اس اعتراض کا کوئی جواب سمجھ میں نہیں آتا۔ امید کہ جناب والا اپنی عنایات قدیمانہ سے ازالہ شبہ فرماکر اطمینان بخشیں۔
الجواب:
 اگر جملہ اسمیہ کے استمرار کے یہ معنی ہوں تو ’’زید ضارب غداً‘‘ کے یہ معنی ہوں گے کہ بس کل کو جب اس سے ضرب صادر ہوگی تو پھر ابداً ضرب ہی صادر ہوتی رہا کرے گی۔ آیت :’’ثم انکم بعد ذلک لمیتون ثم انکم یوم القیمۃ تبعثون‘‘ کے دونوں جملوں میں صریح تعارض ہوگا کیونکہ ’’لمیتون‘‘ کا مدلول دوامموت ہوگا دوسرا جملہ اس دوام کی نفی کرتا ہے اور اعادہ معدوم کا اشکال جو لکھا ہے تو کیا اس کا استحالہ کسی دلیل سے ثابت ہے عین ہونے کے لئے جن امور کی ضرورت ہے وہ وجود ثانی میں محفوظ رہ سکتے ہیں اور اگر بعض عوارض کا بدل جانا بقا عین میں مضر ہو تو پھر زید جو کل تھا لازم آتا ہے کہ آج نہ ہو اور جس معنی کر اس کا استحالہ ثابت ہے، اسی معنی کر ہم قائل نہیں نہ جزا و سزا اس معنی پر موقوف ہے اور جب اعادہ معدوم ممکن ہے تو ظاہر ہے کہ بعض فرض اعادہ کے یہ مُعاد وہی عامل طاعت و معصیت ہے جو نشاۃ اولیٰ میں تھا اور پھر معدوم کردیا گیا تھا اور س کا لغۃً خلق جدید ہونا مضر مقصود نہیں حق تعالیٰ کے کلام سے ایسا جدید ہونا مسلم ہے: ’’بل ہم فی لبس من خلق جدید‘‘اور اگر اس کا نام خلق مثل فرض کرلیا جائے تب بھی کوئی عقلی اشکال نہیں اور مثلین کا ایسا تغائر جزا و سزا کے توجہ میں مضر نہیں جیسا بعض حکما بھی تجدد امثال کے قائل ہیں پھر بھی خطابات وتبعات ماضیہ دوسرے مثل پر متوجہ ہیں عجب نہیں ایسی گنجائش کی بنا پر حق تعالیٰ نے بعض جگہ ’’یخلق مثلہم‘‘ فرمایا، ہو فی جواب : ’’قولہم أ انا لمبعوثون خلقاً جدیداً۔‘‘ ۲۳؍رجب ۱۳۳۴ھ
سوال متعلق مسئلہ بالا:
 ’’کل شی ء ہالک الاوجہ‘‘ کے متعلق عاجز کے شبہ کا جواب جناب نے جو تحریر فرمایا ہے، اس میں چونکہ میرے منشا سبہ سے تعرض نہیں ہی، اس وجہ سے کچھ سمجھ نہیں آیا، اس کا باعث غالباً اظہار شبہ میں عاجز کی عبارت کا قاصر ہونا ہے۔ اب زیادہ واضح لکھنے کی کوشش 
Flag Counter