Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

286 - 756
	حروف دو قسم کے ہیں۔ اصلیہ اور فرعیہ۔ فرعی وہ حرف ہیکہ دو حرفوں کے خلط کرنے سے پیدا ہوا ہو جیسے صاد مشمہ بالزاء کہ صاد اور زی کے خلط کرنے سے پیدا ہوا ہے۔ اور اسی طرح وہ حرف بھی فرعی کہلاتا ہے جو دو مخرجوں میں آمد رفت رکھتا ہو یعنی مخرج اصلی سے غیر اصلی میں اور اصلی سے مخرج اصلی میں آتا جاتا ہو جیسے نون مخفاۃ کہ حرف اخفاء دور کرنے سے مخرج اصلی میں آجاتا ہے اس کے بعد حرف اخفا لگا لینے سے خیشوم میں چلا جاتا ہے حرف اصلی حرف فعی کے مقابل ہے کہ اس میں نہ دو حرف کا خلط ہوتا ہے نہ مخرج اصلی اور غیر اصلی اور غیر اصلی میں مانند نون مخفاۃ کے منتقل ہوتا رہتا ہے پھر حروف فرعیہ دو قسم میں فصیحہ اور غیر فصیحہ میں سے پانچ حروف قرآن مجید میں وارد ہوتے ہیں۔ دقائق المحکمہ فی شزرح المقدمہ جو شیخ زکریا انصاری نے مقدمہ جزریہ کی شرح کی ہے اور منح الفکریہ کے حاشیہ پر چڑہی ہوئی ہے اس کے صفحہ ۸ میں ہے:
	  وقد یتفرع علی ما ذکر فروع بان یتولد الحرف من حرفین ویتردد بین مخرجین بعضھا غیر فصیح والوارد الاول فی القرآن خمسۃ الالف الممالۃ والھمزۃ المسھلۃ والام المفخمۃ والصاد کالزاء والنون المخفاۃ۔ قال فی المنح الفکریۃ ثمہ اعلم ان الحروف المذکورۃ فی الحروف الاصلیۃ وثمہ حروف فرعیۃ تکون ممزجۃ بالاصلیۃ للعلل المقضیۃ لھا لیس ھٰذا محلھا وھی الھمزۃ المسھلۃ بینھا وبین الالف والواو والیاء کذا الالف الممالۃ اللام المفخمۃ والصاد المشمۃ والنون المخفاۃ وھٰذہ الحروف الخمسۃ کلھا فصیحۃ جاء ت بھا القراء ۃ الصحیحۃ والروایات الصریحۃ‘‘
 اس کو بھی خوب ذہن نشین کر لینا چاہئے۔ 
مقدمہ ثالثہ :
	ہمس میں لغت اور اصطلاح دونوںکی اسی آواز کی خفاء اور آہستگی کا اعتبار ہے اس میں آواز کے جاری ہونے کی شرط نہیں ہے یعنی جو آواز خفی اور آہستہ ہو اونچی اور بلند نہ ہو اس کو ہمس کہتے ہیں قال فی القاموس الھمس الصوت وکل خفی الخ اگر ہمس میں آواز کا جاری ہونا بھی شرط ہوتا تو الھمس الصوت الخفی الجاری کہتا پس ہمس آہستہ اور پست آواز کو کہتے ہیں خواہ جاری ہو جیسے سین اور شین کی خواہ بند ہو جیسے کاف اور تے کی خواہ منہ کی ہو یا اس کے قدم کے رفتار کی یہ سب ہمس کہلاتے ہیں البتہ حروف مہموسہ اپنی تلفظ کے وقت سانس کو جاری ہونے سے نہیں روکتے لیکن سانس اور چیز ہے اور آواز اور چیز ہے کما قال فی المنح الفکریۃ:
 ’’والتحقیق ان الھواء الخارج من داخل الانسان ان خرج ذالک بدفع الطبع یسمی نفسا لفتح الفاء وان خرج بالارادۃ وعرض لہ تمرج بتصادم الجسمیں یسمی صوتاً‘‘۔
	پس سانس کے جاریہونے میں آواز کا جاری ہونا اور آواز کے جاری ہونے میں سانس کا جاری ہونا ضرور نہیں کبھی آواز بند ہوتی ہے اور سانس جاری رہتی ہے کبھی سانس بند ہوتی ہے آواز جاری رہتی ہے: قال العلامۃ العلی القاری ناقلاً عن دلاشارح 
Flag Counter