Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

283 - 756
	سب امت پر یہ بات لازم ہے کہ جس طرح سے اول اپنے بچوں کو الفاظ قرآن پڑھاتے ہیں اسی طرح اس بات کا بھی اہتمام رکھیں کہ جو بچہ حرف شناس ہو کر اردو زبان پڑھنے سمجھنے لگے اس کو اول موضح القرآن کا سبق دیں تاکہ وہ قرآن شریف کے لفظ معنی سمجھ لئے پھر صفحہ چودہ میں فرماتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ قرآن کا اتارنا نرہے پڑھنے ہی کے لئے نہیں ہے بلکہ اس لئے کہ اس کو پڑھ کر اس کا مطلب سمجھیں یہ بات ہر پڑھے اوران پڑھے پر واجب ہے۔
پھر صفحہ ۱۹ میں فرماتے ہیں :
	بڑے شرم کی بات ہے کہ سارا قرآن تو حفظ ہو نوک زبان پر ہو طوطے کی طرح رات دن اس کو رٹے مگر معنیٰ اس کے معلوم نہ ہوں انتہی۔
	ان تمام علماء کے اقوال سے بغیر صرف ونحو کے عوام مسلمان لڑکوں کو ترجمۂ قرآن مجید سکھلانا صاف لفظوں میں واضح ہی بڑے تعجب کی بات ہے کہ ترجمۂ قرآن واحادیث وتفاسیر کے ترجمے جو عالموں نے تالیف کیے ہیں اس کو بطور خود بغیر استاد کے پڑھنے میں کسی کو ضرر کا احتمال نہیں ہوتا مگر وہی چیز استاد کے ذریعے پڑھنے میں ضرر کا اندیشہ کرنا نہایت تعجب انگیز ہے۔ بر خلاف اس کے عمرؓ کا یہ قول ہے کہ ترجمۂ قرآن شریف بغیر صرف ونحو کے مدرسوں میں استاد کے ذریعہ سیکھنے والئے دین اسلام سے گمراہ ہو جائیں گے گو وہ علماء اہل السنۃ کے اہتمام سے بھی کیوں نہ سکھلائے جائیں۔ اس لئے اب ہم مؤدبانہ علماء کرام سے گذارش کرتے ہیں کہ ان ہر دو کے اقوال پر نظر غائر ڈال کر مدلل طور سے بیان فرمائیں ۔ بینوا توجروا
الملتمس:[۱]نطہرما شمس الدین (صاحب رئیس دانمباری) [۲]ٹی امیں الدین(صاحب مٹھ وار رئیس دانمباڑی) [۳]ملیالم حاجی ابراہیم (صاحب رئیس وانمباڑی) [۴]فخر الدین لعل شاہ (صاحب رئیس وانمباڑی)
الجواب: ومنہ الصدق والصواب
	۔تعلیم قرآن مجید کا سب کے لئے صغار ہوں یا کبار عوام ہو یا خواص مطلوب ومامور بہ ہونا ظاہرہے اور اس میں تعلیم ترجمہ بھی داخل ہے اس لئے کہ عجم کا ترجمہ سے وہی تعلق ہے جو عرب کا اصل ہے اور عوام عرب کو کہیں اس کی تعلیم سے مستثنی نہیں کیاگیا اس لئے عوام عجم کو بھی تعلیم ترجمہ سے مستثنیٰ نہ کہا جائے گا اور روایت لا تعلموھن سورۂ یوسف کی صحت ثابت نہیں ہوئی البتہ اگر کہیں متعلیم کی کج فہمی سے اس میں مفاسد پیدا ہونے لگیں تو خود ان مفاسد کا انسداد کیا جائے گا اور اس انسداد کی تدابیر امور اجتہادیہ ہیں جو مبنی میں تجارب پر کہ ان مصلحین کی آراء مختلف بھی ہو سکتی ہیں سو اس کے اصول یہ احقر اپنے تجربہ کے موافق لکھتا ہے۔ 
(۱) تعلیم کنندہ عالم کامل وحکیم عاقل ہو کہ ترجمہ کی تقریر اور مضامیں تفسیر کیانتخاب میں مخاطب کے فہم کی رعایت رکھے۔
 (۲)متعلم خوش فہم ونقاد ہو معجب بالرائی وخود پسند نہ ہو کہ تفسیر سمجھنے میں غلطی نہ کرے اور تفسیر بالرائے کی جرأت نہ کرے۔
 (۳)اگر کوئی مضمون متعلم کے تحمل فہم سے بالاتر ہو اس  میں معلم اس کو وصیت کرے کہ اس مقام کا ترجمہ محض تبرکاً پڑھ لو یا اجمالاً اس قدر سمجھ لو اور آگے تفصیل میںفکر مت کرو اور وہ متعلم بھی اس کو قبول کر لئے اسی طرح اگر معلم اوصاف مذکورہ نمبر ۱ کا جامع میسر نہ ہو تو وہ بھی ایسے مقامات کی بالکل تقریر نہ کرے صرف ترجمہ کی عبارت پڑھا ئے چنانچہ ہمارے قصبات میں اکثر لڑکیاں قرآن مجید کا ترجمہ پڑھتی ہیں مگر اس طرح کہ 
Flag Counter