Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

282 - 756
ہندوستان کے مشہور مستند علمائے کرام کے اقوال
شیخ الاسلام مولانا مولوی شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ اپنی کتاب فتح الرحمن کے دیباچہ میں فرماتے ہیں
	 ’’ومرتبہ ایں کتاب بعد خواندن متن قرآن ورسائل مختصر فارسی است یا فہم لسان فارسی بے تکلف دست دہد وتخصیص صبیان اہل حرف (جمع حرفہ) وسپاہیان کہ توقع استیفاء علوم عربیہ ندارند۔ در اول سن تمیز ایں کتاب را بایشاں تعلیم باید کرد تااول چیزیکہ در جوف علیشان افتند معنیٰ کتاب اللہ باشد وسلامت فطرت از دست نہ رود وسخن ملاحدہ کہ بمرقع صوفیہ صافیہ مستتر شدہ عالم را گمراہی سازند فریفتہ نہ کند واراجیف(چیزہائے دروغ) ؟؟؟؟خام سخن ہنودان بے انتظام لوح سینہ را ملوث نہ سازد ونیز آنانکہ بعد انقضاء شطر عمر ( نیمہ چیزے) توفیق توبہ یابند وتحصیل علوم آلیہ (مثل نحو صرف) نتوانند اہل کتاب ایشانرا باید آموخت تادر تلاوت حلاوت یابند ومنفعت آں در حق جمہور مسلمانان متوقع است انشاء اللہ العظیم۔ اما در حق صبیان ومبتدیان خود ظاہر است چنانکہ گفتہ آمد۔‘‘  
	اس مضمون میں شاہ صاحب نے خصوصیت کے ساتھ پیشہ ور تمام مسلمانوں کے لڑکے اور لڑکیوں کو بغیر تعلیم صرف ونحو کے ترجمۂ قرآن مجید سکھلانے کے لئے صاف لفظوں میں ہدایت کی ہے عیاں راچہ بیاں۔
 اور شیخ الاسلام مولانا مولوی شاہ عبد القادر صاحب رحمہ اللہ دہلوی اپنی کتاب موضح القرآن کے دیباچہ میں فرماتے ہیں:
	 سننا چاہئے کہ مسلمانوں کو لازم ہے کہ اپنے رب کو پہنچانیں اور اس کی صفات جانیں اور اس کے حکم معلوم کریں اور خدا کی مرضی ونامرضی تحقیق کرے کہ بغیر اس کے بندگی نہیں اور جو بندگی نہ بجا لائے وہ بندہ نہیں۔ اللہ سبحان وتعالیٰ کی پہچان آئے۔ بتانے سے آدمی محض تاوان پیدا ہوتا ہے۔ سب چیز سیکھتا ہے سکھانے سے ۔ اور بتانے سکھانے والئے ہر چند تقریریں کریں پر اس برابر نہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا۔ اللہ کے کلام میں جو ہدایت ہے وہ دوسرے میں نہیں۔ پر کلام پاک اس کا عربی ہے اور ہندوستانی کو ادراک اس کا محال اس واسطے اس بندہ عاجز عبد القادر کو خیال آیا کہ اب ہندی زبان میں قرآن شریف کو ترجمہ کرے اب کئی باتیں معلوم رکھیے۔ اول یہ کہ اس جگہ ترجمہ لفظ بلفظ ضرور نہیں کیونکہ ترکیم ہندی عربی سے بہت بعید ہے اگر بعینہ وہ ترکی رہے تو معنی مفہوم نہ ہوں دوسرے یہ کہ اس میں زبان ریختہ نہیں ہے بلکہ ہندی متعارف تاکہ عوام کوبے تکلف دریافت ہو۔ تیسرے یہ کہ ہر چند معنی قرآن اس سے آسان ہوئے لیکن اب استاد سے سند کرنا لازم ہے اول معنی قرآن بغیر سند معتبر نہیں دوسرے ربط کلام ما قبل وما عبد سے پہچاننا اور قطع کلام سے بچنا بغیر استاد نہیں آتا چنانچہ قرآن زبانِ عربی ہے۔ پر عرب بھی محتاج استاد تھے۔
 مولانا مولوی نواب سید صدیق حسن خان صاحب رحمہ اللہ اپنی کتاب ترجمۃ القرآن کے دیباچہ میں فرماتے ہیں :

Flag Counter