Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

278 - 756
	پس آج کل جو جائز سمجھا جاتا ہے کہ متعدد دف برات کے ساتھ لئے کر چلتے ہیں اوربجانے والئے بھی کاریگر ہو تے ہیں جو کچھ دنوں تک بجانے سیکھتے ہیں جس میں صاف تطریب ہوتی ہے یہ کیوںکر جائز ہوگا جائز ہونے کی صورت حسبِ تصریحات انعلماء کے صرف یہ ہو سکتی ہے کہ بعد نکاح ہوگیا۔ پس قبل نکاح کے برات کے ساتھ دف لئے جانا اور اس کو شرعی برات قرار دینا نہایت قبیح اور مذموم ہے اور اس میں شرعاً چند قباحتیں ہیں اول لہو کیونکہ نکاح ابھی ہو نہیں یہ اعلان کیسا دوسرے نمائش کیوںکر برات کے ساتھ دف لئے جانے میں سوائے نمائش کے دوسری غرض شرعی نہیں ہو سکتی اور نمائش خود حرام ہے تیسرے اس راف کیونکہ بے محل بجایا۔ محل اس کابعد نکاح ہے لہٰذا ناجائز۔ پس جس صورت کے ساتھ علمائے متأخرین نے خلاف مذہب دف کے جواز کی صورت لکھی ہے وہ طریقہ مروج نہیں اور جو مروج ہے وہ خود ان کے نزدیک جائز نہیں علاوہ اس کے سب سے زیادہ تعجب خیز یہ امر ہے کہ اعلان نکاح کے واسطے صرف دف کو لوگ جائز سمجھتے ہیں اور دوسرے باجوںکو جائز جانتے ہیں یہ ایک نہایت نا معقول بات ہے جن علماء ومتاخرین نے اعلان نکاح کے واسطے اپنے مذہب کے خلاف دف کی اجاازت دی ہے وہی علماء لکھتے ہیں کہ اعلان نکاح کے واسطے دف کی تخصیص نہیں جس باجہ سے ممکن ہوا اعلان کر سکتے ہیںمگر جو باجہ ہو تینوں شرائط مذکورہ جوا بھی لکھی گئی ہیں انکا لحاظ بہر حال لازم ہے۔
	 اب ان عبارتوں کو ملاحظہ فرمائیے جن سے دف کی خصوصیت نہیں ثابت ہوتی۔ قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی رسالہ سماع میں فرماتے ہیں ’’چوں ضرب دف برائے اعلان نکاح حلال یا مستحب باشد دبل وطنبورہونقارہ رااز دف چہ تفاوت امت برائے لہو ہمہ حرام اس وبرائے غرض صحیح ہمہ حلال باشد اعلان از ہر یک می شود فرق کردن در دف وغیر آن امریست غیر معقول؛ اور اسی عدم خصوصیت کی وجہ سے علامہ طحطاوی نے طبلہ کو اعلان نکاح کے واسطے جائز لکھا ہے۔ عبارت یہ ہے وطبل العروس فیجوز حضرت شاہ احمد سعید صاحب نقشبندی مجددی تحقیق الحق المبین میں فرماتے ہیں ’’پس بر قول مجیب حکم دہل وتاشروغیرہ نیز موافق طبل قیاس کن‘‘ علامہ شامی نے رد المختار میں ایک قاعدہ کلیہ تحریر فرمایا ہے جس سے کل باجوں کا اعلان نکاح کے واسطے بجانا ثابت ہے عبارت یہ ہے ان اٰلۃ اللھو لیست محرمۃ بعینھا بل لقصد اللھو۔ دیکھو آلہ لہو کو عموماً لکھا ہے کہ بقصد لہو حرام اور بغرض صحیح جائز کیونکہ دف اور غیر دف باجہ ہونے میں برابر ہیں۔ 
پس خلاصۃ تحریر یہ ہے کہ اصل مذہب حنفی یہ ہے  کہ دف وغیرہ کل باجے حرام ہیں شادی اور غیر شادی میں کسی وقت جائز نہیں۔ ہاں مذہب شافعی میں صرف ختنہ ونکاح وغیرہ بعض مواقع سرور میں بپابندی شرائط مذکورۂ ذیل چوتھی روشنی مباح اور ترک اولیٰ اور جو علماء احناف متأخرین خلاف مذہب جائز لکھتے ہیں وہ د ف کی خصوصیت نہیں کرتے بلکہ کل باجوں کو بقصد لہو حرام اور بقصد صحیح مباح کہتے ہیں اور جن صورتوں سے مباح ہے وہ مروج نہیں اور جو طریقہ بجانے کا جائز سمجھ کر مروج ہے وہ ہر گز جائز نہیں بس مقلدین امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے لئے خیریت اسی میں ہے کہ ہرگز اس کو اختیار نہ کریں ورنہ سخت خطرہ میں مبتلا ہوں گے۔ (احقر ابو الاسحاق انصاری محمد آبادی)
انھترویں حکمت
قصہ ابو شحمہ
سوال:
	 ایک قصہ درمیان واعظین کے مشہور ومعروف ہے جس کی صحت کی ضرورت ہے اس واسطے حضور کو تکلیف دیتا ہوں معہ حوالہ کتاب 
Flag Counter