Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

277 - 756
	 جب حدیث شریف میں ضرب دف سے مراد اعلان اور تشہیر ہے تو پھر متأخرینعلماء حنفیہ کا جائز کہنا اور اسح دیث کو استدلال میں پیش کرنا صحیح نہیں بلکہ بے محل ہے اور ضرب دف ہے اعلان اور تشہیر کیمراد ہوتے پر بڑا زبردست قرینہ یہ ہے کہاب تک کسی ضعیف روایت سے بھی ثابت نہ ہوا کہ زمانہ رسالت میں کسی صحابیؓ نے اعلان نکاح کے لئے دف بجا کر اس حدیث کی تعمیل کی ہو۔ حالانکہ صحابہؓ کرام کو اتباع سنت میں جو شغف تھا وہ علماء پر مخفی نہیں اس سے زیادہ عجیب یہ ہے کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد نکاح اپنا اور اپنی صاحبزادیوں کا فرمایا کبھی کسی نکاح میں آپ نے دف بجانے کا حکم نہیں دیا من ادعی فعلیہ البیان زیادہ سے زیادہ بخاری شریف کی حدیث ربیع بن معوذ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چند نابالغ لڑکیوں نے بعد زفاف کیدف بجایا تھا اس حدیث سیبالغ کے دف بجانے کا جواز سمجھنا کیوںکر صحیح ہو سکتا ہے کیوں کہ لڑکیاں غیر مکلف تھیں اگر کسی روایت سے بالغ عورتوں کابجانا ثابت بھی ہو جائے تو اس کے جواب میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حدیث کافی ہے ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نھی عن ضرب الدف ولعب الصنج وضرب الزمارۃ یعنی اس حدیث کی رد سے یہ کہا جائے گا کہ اگر آپ نے اجازت دی ہو گی تو پھر منع فرمادیا جس کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ظاہر فرمایا ۔لاوہ اس کے جناب  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیسامنے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دف کو مزمور الشیطان کہا اور حضور نے سکوت فرمایا خیال فرمائیے کہ اگر صدیق اکبر کا دف کو مزمور الشیطان فرمانا بجا اورصحیح نہ ہوتا تو شارع علیہ الصلوۃ والسلام ضرور منع فرماتے۔ پس بموجب اس روایت کے جب مرموز الشیطان ٹھہرا تو پھر یہ کیوں کر ممکن ہے کہ صحابہؓ کرامؓ اس سے اعلان نکاح کرتے پس اکثر مشائخ حنفیہ کا حدیث ضرب دف سے اعلان اور تشہیر مراد لینا بہت بجا ہے کیونکہ زبان عربی اور فارسی کا محاورہ میںضرب دف بول کر اعلان اور ت شہیر مراد ہو کرتی ہے۔ زبان عربی کا حال تو ابھی علامہ تور پشتی اور علامہ فقیہ امام الہدیٰ ابو اللیث سمرقندی اور علامہ عمر بن محمد بن عوض سلامی رحمہم اللہ کے اقوا سے معلوم ہوچکا  فارسی میں بھی دف زدن کے معنی اعلان کردن وشہرت دادن کے ہیں۔ نظیرکے طور پر حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمہ کا شعر جو بوستان میںملاحظہ فرمائیے    ؎
یکے را چومن دل بدست کسے

گور وبود ومے بر دخواری بسے
پس از ہوشمندی وفرزانگی 

بدف برزدندش بدیوانگی
	مصرعہ اخیر کا ترجمہ یہ ہے کہ اس کی دیوانگی کا دف بجایا یعنی اس کو دیونہ مشہور کیا پس جس طرح یہاں دف بجانے سے مشہور کرنا مراد ہے اس طرح حدیث کا مطلب ہے کہ نکاح کو علانیہ کرو اور خوب مشہور کرو۔
ساتویں روشنی:
	تنزل کے درجہ پر اگر بعض علماء احناف متأخرین کا استدلال صحیح مان لیا جائے کہ اعلان نکاح کے واسطے دف بجانا کچھ مضائقہ نہیں بلکہ مباح ہے تو ان شرائط وقیود کا لحاظ ضروری ہے جن کو مباح سمجھنے والوں نے بیان کیا ہے (شرط اول) جھانجھ نہ ہو (شرط دوسری) تطریب نہ ہو چنانچہ شامی اور فتاویٰ سراجیہ اور شرح ابو المکارم اور شرح نقایہ چاروں میں ہے:
	 ’’ھٰذا اذا لم یکن لہ جلاجل ولم یضرب علی ھیعۃ التطریب‘‘۔ 
	(تیسری شرط) یہ ہے کہ بہت تھوڑی دیر تک بجایا جائے۔ لمعات میںہے دل الحدیث علیٰ اباحۃ مقدار الیسیر مجمع البحار میں ہے :
	’’اقرعی القدر الیسیر فی نحو العرس والعید الخ ‘‘۔

Flag Counter