Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

276 - 756
	علامہ ابن حجر نے ماوردی کا قول لکھا ہے کہ اب ہمارے زمانہ میں استعمال دف مکروہ ہے کیوںہ بے وقوفی اور سفاہت پائی جاتی ہے عبارت یہ ہے وما فی زماننا قال فیکرہ فیہ لانہ ادی الی السخف والسفاھۃ۔ اس پر علامہ نے لکھا ہے کہ ہمارے اور ماوردی کے زمانہ میں پانچ سو برس کا فاصلہ ہے اب تو اس سے زیادہ خرابی آگئی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ علامہ ابن حجر کو بھی گذرے ہوئے قریب چار سو برس ہوئے سوائے شرو فساد خیر وصلاح کا نام نہیں ہے اب تو باوجود لحاظ شرائط مذکورہ ترک کر دینا چاہئے۔ 
چھٹی روشنی:
	اصل مذہب حنفیوں کا توپہلی اور دوسری روشنی کے ذیل میں جو عبارات لکھی گئی ہیں ان سے معلوم ہوگیا ہوگا کہ عموماً باجہ اور خصوصاً دف بھی حرام ہے اب بعض علماء حنفیہ جو اپنی کتابوں میں اعلان نکاح کے واسطے دف بجانا لکھتے ہیں تو اصل میں یہ قول ظاہر روایت کے خلاف ہے اور کچھ تعجب نہیں جو علماء حنفیہ کو روایات شافعیہ سے دھوکا ہوگیا ہواور اس کے نظائر وامثال کتب حنفیہ میں کثرت سے ملتے ہیں کہ کسی ایک کتاب میں کوئی قول دوسرے مذہب کا کسی مصنف نے لکھا اور دوسروں نے اس کی دیکھا دیکھی اعتماد کر کے اپنی تصنیف میں درج کر دیا اور وہ یوں ہی نقل ہوتا چلا آیا۔ حتی کہ دس بیس کتب میں منقول ہوا۔ اب کسی عالم کو شبہ ہو سکتا ہے کہ مذہب حنفی کا یہ مسئلہ نہیں ہے مگر بوقت تحقیق معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ قول خلافِ مذہب نقل در نقل ہوتا آیا ہے دیکھو علامہ ابن ہمام فتح القدیر باب نکاح الرقیق میں فرماتے ہیں۔ فھذا ھو الوجہ وکثیر اما یقلد الساھون الساھین یعنی ایسا بہت ہوتا ہے کہ بھولنے والئے بھولنے والوں کی پیروی کرلیتے ہیں بحر الرائق کتاب البیوع باب المتفرقات میں لکھتے ہیں:
’’ وقد یقع کثیراً ان مؤلفاً یذکر شیئا خطأ فی کتبہ فیأتی من بعدہ من المشائخ فینقلون تلک العبارۃ من غیر تغیر ولا تبنیہ فیکثر الناقلون لھا وصلھا الواحد مخطی‘‘۔
	  یعنی ایسا بہت ہوتا ہے کہ ایک مؤلف کسی مسئلہ کے لکھنے میں خطا کر جاتا ہے اس کے بعد علماء مشائخ اس کی دیکھا دیکھی لکھتے چلئے جاتے ہیں حالانکہ خطا کرنے والا ایک ہی تھا۔ دیکھو صاحب در مختار نے بہ تبعیت صاحب نہر الفائق وبحر الرائق لکھ دیا اقیموا الصلوۃ وا)تو الزکوۃ قرآن میں ۸۲ جگہ ہے حالانکہ یہ شمار غلط ہے صرف اعتمادا یہ غلط شمار منقول ہوتا گیا۔ قرآن عظیم موجود ہے دیکھ لئے لیجیے صرف ۳۲ جگہ یہ جملہ مے لگا۔ پس ہماری کت فقہیہ حنفیہ میں جو دف کا جوز اعلان نکاح کے واسطے لکھا ہوا ہے وہ اصل مذہب اور ظاہر الروایت کے خلاف ہے پس منشاء تقلید ہر گز یہنہیں ہے کہ دف کو جائز سمجھا جائے پس کسی عالم حنفی کی تصنیف یا فتاویٰ میں جواز کھلنے سے حقیقت میں جائز نہ ہوگا بلکہ ان حجرات علماء احناف محققین کا اپنی تصنیف وفتاویٰ میں لکھنا اسی پر محمول ہوگا یہ ایک غلطی ہے جو نقل درنقل ہوتی گئی جس کا اصل مذہب میں پتہ نہیں اسی وجہ سے علامہ توپشتی نے فرمایا کہ اکثر مشائخ کے نزدیک حرام ہے اور اس حدیث کا جس میں اعلانِ نکاح کے واسطے دف بجانے کا اذکر آیا ہے ہمارے مشائخ حنفیہ جواب دیتے ہیں کہ دف بجانے سیمراد اعلان ہے نہ حقیقت میں باجہ دف بجانا۔ چنانچہ شرح نقایہ اور نصاب الاحتساب وبستان العارفین میں یہ جواب مذکور ہے۔ عبارت شرح نقایہ یہ ہے:
 ’’قال التور پشتی انہ حرام علی قول اکثر المشائخ وما وردمن ضربالدف فی العرس کنایۃ عن الاعلان‘‘۔

Flag Counter