Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

27 - 756
سترھواں غریبہ
’’دردفع اشکال برمضمون وما علمناہ الشعر‘‘
سوال:
 مجادلات معدلت کے نمبر ۳۱ میں قرآن اور تغنی کے ضمن میں آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ قرآن مجید اور حدیث شریف کے بعض جملوں میں مصراعیت کی شان ہے اور بعض بالکل موزوں ہیں لیکن چونکہ وہ بلا قصد میں اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ ’’ما علمناہ الشعر‘‘ کے خلاف ہیں شعر وہ ہے کہ جس میں قصدوزن  کا ہو نہ کہ اتفاقاً وزن ہوگیا ہوا ماحصل آپ کی تقریر کا یہ ہے کہ کلام موزوں بلاقصد شعر نہیں اور جب شعر نہیں تو ’’ماعلمناہ الشعر‘‘ کا خلاف لازم نہیں آتا مگر اساتذئہ فن نے لکھا ہے کہ شعر اصطلاح میں کلام موزوں مناسب الالفاظ کو کہتے ہیں قصد موزونیت اگر داخل صفت شعر ہے لیکن وجود شعر میں اس کو دخل نہیں جو شعر بلاقصد منہ سے نکل جاتا ہے اس کو فی البدیہہ کہتے ہیں۔ اس صراحت کا نتیجہ یہ ہے کہ کلام موزوں بلاقصد شعر ہے اور آورد پر آمد کو ترجیح ہے اگر برسبیل تنزل مان بھی لیا جائے کہ کلام موزوں بلا قصد شعر نہیں تب بھی یہ شبہ باقی رہتا ہے کہ قصد موزونیت نہ تھا تو یہ موزونیت کہاں سے آگئی قصۂ مختصر اللہ پاک کی شان سے یہ بعید ہے کہ باوصف اہتمام نیز اتفاقاً بعض کلام موزوں ایسا صادر ہوجائے کہ اوزان متعارفہ پر بے تکلف تقطیع کیا جاسکے۔ امید ہے کہ آپ اس شبہ کے دور کرنے میں جواب تحریر فرمادیں گے۔
الجواب:
 شعر اصطلاحی وہ کلام موزوں ہے جس کے ایراد میں موزونیت من حیث الشعر العرفی کا قصد کیا گیا ہو، پس اس تعریف سے ایسی آیات واحادیث خارج ہوگئیں جو اوزان شعر یہ پر منطبق پائی جاتی ہیں۔ احادیث تو اس لئے کہ ان میں موزونیت کا قصد ہی نہیں اور آیات اس لئے کہ ان میں موزونیت حیث الشعر یہ کا قصد نہیں، پس صرف قصد کا التزام قول بالاضطرار سے بچنے کے لئے مضر نہیں اور فی البدیہہ شعر میں عدم قصد کا شبہ نہ کیا جائے کیونکہ عدم قصد اس کے ورود میں ہے تو اس مرتبہ میں اس کے شعر ہونے پر کوئی دلیل نہیں اور شعر ہونا اس کا مرتبہ ایراد میں ہے تو اس مرتبہ میں وہ شعر بھی ہے اور کلام نفسی باری تعالیٰ میں خود عدم قصد سے جواب ہوجائے گا کیونکہ وہ مرتبہ صفت کا ہے جو ارادہ کا متعلق نہیں ہے اور تعریف مذکور میں عرفی کی قید سے دور کا شبہ جاتا رہا۔ اب جواب مذکور کی تائید کے لئے اہل مہارت کی کچھ نقل پیش کی جاتی ہے:
’’فی کشاف اصطلاحات الفنون للقاضی محمد اعلیٰ التہانوی وہو دای الشعر الکلام الموزون المقفی الذی قصد الی وزنہ وتقفیتہ قصد ابواولیا الی قولہ یعنی لیس مقصودہ تعالی ان یکون ہذا الکلام شعراً علی حسب اصطلاح الشعرائ۔‘‘ (ص۷۴۴)۔
 اور مجادلات کی عبارت میں جو بلا قصد واقع ہے مراد اس سے خاص قصد کی نفی ہے یعنی قصد روزن من حیث الشعریۃ اور اسی کو لفظ اتفاق سے تعبیر کیا ہے ولامشاحۃ فی الاصطلاح اور جب ماہرین نے تعریف میں قصد روزن کی تصریح کردی تو کسی دوسرے کی تصریح نہ 
Flag Counter