Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

26 - 756
اس طرح سے کہ آیات سے مراد بقرینہ مقام و اضافۃ الی العظیم آیات عظمی و کبریٰ ہیں جس کو سورئہ والنجم آیت ’’لقد رای من آیات ربہ الکبری‘‘میں صاف اس عنوان سے ذکر فرمایا ہے اور آیات کبری کاملہ فوق السموٰت ہیں، پس اس کی ارادت کے ذکر میں اشارہ ہوگیا عروج فوقہا کی طرف کیونکہ اصل یہی ہے کہ رائے اور مرئی ایک جگہ ہو الا بدلیل یقتضی العدول عن ذلک الصل باقی یہ کہ جب یہ آیات سماویہ ہیں تو اسریٰ لیلاً اس میں کیسے عامل ہوا وہی وجہ عدم صحت کی یہاں ہونا چاہئے جواب یہ ہے کہ غایت کے معمول ہونے سے ارادت کا مظروف ہونا لازم نہیں آتا اور بدون مظروفیت کے اس کا غایت ہونا اسی طرح صحیح ہوسکتا ہے کہ اسرأ الی المسجد مقدمہ ہے عروج سماء کا اور عوج کی غایت ہے ارادت اور مقصود کی غایت بوسطہ مقصود کے غایت ہوتی ہے مقدمہ کی بھی کیونکہ مقصود باعتبار مقدمہ کے کالغایت ہے اور غایت الغایۃ غایت ہوتی ہے۔ واللہ افاض علی ہذہ النکتۃ لیلۃ الخمیس تاسع عشر من ربیع الاخر ۱۳۳۴ھ وللّٰہ الحمد مالا یحدو لایحصیٰ۔  
۱۹؍ربیع الآخر ۱۳۳۴ھ
سولہواں غریبہ
’’جواب بعضے شبہات برحدث و روح مذکور دررسالہ الفتوح‘‘
سوال۱ :
 جناب نے جو روح کے قدم کو تکشف میں باطل فرمایا، اس میں علوم کا قدم شخصی باطل ہوتا ہے نہ نوعی؟
سوال ۲:
 ’’ماثبت قدمہ امتنع عدم‘‘ یہ موجودات میں ہے نہ اعدام میں ورنہ حوادث یومیہ کا وجود محال ہوجائے کیونکہ یہاں بھی اس کا عدم قدیم ہیت و جیسے علم حادث روح کا عدم محال ہے، زید کے عدم کا عدم کیوں نہ محال ہوگا؟
الجواب۱:
 میں ہمیشہ سے حدوث کل شخص شخص کے مستلزم للحدوث النوعی ہونے کو بدیہی سمجھتا ہوں اور تنبیہ اس پر یہ ہے کہ جب وجود نوع کا بدون وجود شخص کے محال ہے تو جب ہر شخص حادث ہوگا تو قدم نوع کی کیا صورت ہوگی۔
جواب۲:
 جہل عدم محض نہیں ہے بلکہ عدم ملکہ کا ہے جو احکام عقلیہ میں مثل وجودی کے ہوتا ہے، وجہ یہ کہ عدم معلول ہوگا علت کا پس جب یہ قدیم ہوگا تو علت بھی اس کی قدیم ہوگی اور اس کے عدم سے عدم قدیم کا لازم آوے گا جو کہ محال ہے پس یہ بھی ممتنع العدم ہوگا بخلاف عدم محض کے کہ وہ معلول نہیں کسی علت کا اس کے عدم سے کوئی محذور لازم نہیں آتا اور قطع نظر اس کے منہیہ میں جو دلیل ہے وہ اس غبار سے بھی پاک ہے۔ واللہ اعلم۔ 
۲۳؍جمادی الاولیٰ، ۱۳۳۴ھ

Flag Counter