Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

25 - 756
موسیٰ علیہ السلام پہنچانا چاہتے ہیں بوجہ ضعف عقل کے وہاں نہ پہنچ سکے گا خاص کر غلبۂ عشق عقل سے اتنا بھی کام نہ لینے دے گا پس جس طرح فقہاء نے ایسے شخص کو جو بعد کوشش کے تصحیح حروف سے ناامید ہوگیا ہو ترک تجوید کی اجازت دے دی، اسی طرح اس کی ہالت پاس عن کمال المعرفۃ مقتضیٰ ہوئی اس کے لئے کسی قدر توسیع کو اور گو ایسے شخص کے لئے ایسا توسع یہ بھی کلیہ عامہ شرعیہ ہے مگر اس کی تخصیص صرف اتنی ہوگی کہ دوسروں پر جو کہ مغلوب العشق نہیں زیادہ کوشش کرناضروری تھا اور اس پر وہ زیادہ کوشش ضروری نہ رہی اور گو یہ بھی ایک کلیہ ہے لیکن چونکہ اس کلیہ کے مصادیق شاذ و نادر ہیں والنادر کالمعدوم اس لئے حکماً ایسا سمجھا جائے گا کہ گویا یہ حکم اسی کے لئے ہے اور کسی کے لئے نہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ جو غلبۂ عشق بلا جمع اسباب ہے اس میں تو معذوری قاعدہ عامہ ہے لیکن جو غلبہ بجمع اسباب ہو جیسا بعض ذاکرین کی حالت سے مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ جب وہ خلوت یا مراقبہ میں ذکر و فکر میں مشغول ہوتے ہیں فوراً یا کسی قدر دیر کے بعد ان پر ایسے آثار غالب ہوجاتے ہیں سو جس شخص کی ایسی حالت ہو اور اس کو معرفت صفات حق کی بقدر ضرورت حاصل ہوئی ہو اس کو حکم یہ ہے کہ اس معرفت کو تحصیل میں مقدم کرے اور اس کو ان اسباب کے جمع سے منع کیا جائے گا اور ممکن ہے کہ اس شبان کی ایسی ہی حالت ہو مگر باوجود اس کے وہ اس معرفت کی تقدیم کا مامور اور اس جمع اسباب کا منہی نہ ہو، اس کے لئے معرفت ناتمام ہی کو جائز رکھ کر اس کی اس حالت عشقیہ کو اس کے لئے پسند کیا گیا ہو تو اس تقریر پر تخصیص بے تکلف محفوظ رہے گی۔ 
۲۵؍ربیع الاول ۱۳۳۴ھ
پندرھواں غریبہ
’’نکتہ عدم ذکر عروج سمٰوات درآیت اسرأ‘‘
بعض لوگ کو ’’سبحان الذی اسریٰ‘‘... الآیہ میں اسرأ کی غایت مسجد اقصیٰ فرمانے سے اور سمٰوات کے ذکر نہ کرنے سے اس کے انتفاء کا شبہ ہوجاتا ہے سو اول تو احادیث میں پھر خود قرآن میں سورئہ والنجم کی آیت: ’’ولقد راہ نزلۃ اخریٰ ‘‘...الخ  میں مذکور ہونے کے بعد یہ شبہ محض باطل ہے اور ہر جگہ ہر جزو کا مذکور ہونا ضروری نہیں، دوسرے اس جگہ اس کا ذکر کرنا بعد تامل بدون ارتکاب تجوز کے (جو کہ خلاف اصل ہے اور بدون کسی خاص مقتضی کے اصل سے عدول نہیں کیا جاتا) صحیح بھی نہ تھا۔ بیان اس کا موقوف ہے دو مقدمہ پر ایک یہ کہ شروع ایت میں ’’اسریٰ بعبدہ لیلاً‘‘ واقع ہوا ہے جس کا ذکر کرنا بحکمت اشارہ وقوع اسرأ فی اللیل کے (کہ وہ دلالت ہے زیادہ اختصاص پر بوجہ اس کے کہ لیل عادتاً وقت خلوت کا ہے) خصوصیت واقعہ کے مناسب ہے، دوسرا یہ کہ حسب تصریح اہل ہیئت کے لیل و نہار کے تکون کا محل ہوا کا طبقہ کثیفہ مخلوط بالابخرہ ہے جس کا لقب کرۃ البخار اور عالم نسیم اور کرۃ اللیل والنہار بھی ہے، کیونکہ ہوائوں کا چلنا اور ظلمت و نور کی قابلیت اسی میں ہے اور اس کا شخن ارض سے تقریباً سترہ فرسخ یعنی اکاون میل ہے اور اس سے آگے ہوائے لطیف صافی من الابخرہ ہے اور شمس کی شعاعیں چونکہ طبقہ کثیفہ سے متجاوز نہیں ہوتیں، اس لئے وہاں نہار کا تحقق نہیں اور چونکہ لیل ضد ہے نہار کی اس لئے لیل کا بھی تحقق نہیں۔ ان دونوں مقدموں سے معلوم ہوگیا کہ فوق سموات تو درکنار یہاں سے پچاس میل آگے بھی لیل و نہار کا تحقق نہیں پس اگر بعد مسجد اقصیٰ کے عروج سموات کا ذکر فرماتے مثلاً ’’منہ الی السمٰوات وما فوقہا ‘‘یا مثل اس کے تو وہ بھی مظروف لیلاً کا ہوتا تو لازم آتا سیر سموات ’’وما فوقہا الیل ‘‘میں واقع ہوئی، حالنکہ وہاں لیل ہی کا تحقق نہیں، پس اس کی من آیاتنا میں جو کہ ایک غایت ہے اس کی طرف اشارہ فرمادیا، 
Flag Counter