Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

24 - 756
ہوجاتے ہوں اور قیامت میں وہی معرض اور موزوں ہوجاویں اور بعض اہل کشف سے جو منقول ہے کہ انہوں نے غسل خانہ میں سے پانے نکلتا ہوا دیھکا اور آنکھیں بند کرلیں کسی نے پوچھا تو فرمایا ان قطرات میں مجھ کو زنا کا نقشہ نظر آتا ہے سو عجب نہیں کہا س پانی میں ان ہی اجزاء میں سے بعض اجزاء موجود ہوں اور وہ ہیئت زنائیہ ان اجزاء میں حال ہو اور اور اسی طرح ان کو مکشوف ہوگئے ہوں، اور میں نے اپنے استاد علیہ الرحمۃ سے قولہ تعالیٰ: ’’ووجدوا ماعملوا حاضرا‘‘کی تفسیر میں سنا ہے کہ ہر عمل کی ہیئت بھی قیامت میں نظر آوے گی مثلاً چور چوری کرتا ہوا نظر آوے گا، زانی زنا کرتا ہوا، سو عجب نہیں کہ وہی اجزاء اس ہیئت سے نظر آویں اور ان اجزاء کی شکل عامل کسبی ہو اور اہل محشر کے بصر میں خاصیت خوردبین کی پیدا ہوجائے کہ وہ اجزاء خوب بڑے بڑے ہوکر اس عامل کے برابر جثہ میں نظر آویں واللہ اعلم اور اس توجیہ کی بنا پر مولانا کے کلام میں ان کو اعراض سے تعبیر کرنا باعث زعم اہل ظاہر کے ہوگا۔
افادہ:
چونکہ یہ کیفیت عرض اعمال کی یعنی ان کا ظہور صور جوہریہ میں اوفق بظواہر الکتاب والسنۃ ہے، اس لئے اس قول کو ارضی الاقوال کہا گیا جیسا رسالہ کا تسمیہ اس پر دال ہے۔ وللّٰہ الحمد علی ماعلم وافہم۔ 
سلخ صفر ۱۳۳۴ھ
چودھواں غریبہ
’’درتوجیہ بعض اجزاء مشکلہ حکایت راعی موسیٰ علیہ السلام مذکورہ مثنوی معنوی برقریب نصف دفتر دوم‘‘
یہ شخص جاہل تھا مگر صاحبِ حال غلبۂ حالت میں بنا بر اپنے …کے کچھ کچھ کہہ رہا تھاموسیٰ علیہ السلام کو اس کی باتوں سے اس کا جہل تو معلوم ہوا اور مغلوب الحال ہونا معلوم نہیں ہو ااور اس میں کچھ استبعاد نہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ماعز کی نسبت پوچھا تھا کہ اس کو جنون تو نہیں اس لئے اس پر نکیر فرمایا، اس نکیر سے وہ حال جاتا رہا اور اپنے جہل کے اقوال پر ندامت ہوئی اور اس ندامت کے اشتغال سے وہ اشتغال سابق جو بلاواسطہ بحق تھا جاتا رہا جو اپنی ذات میں اشتغال بالندم کی نسبت اکمل فی قرب الالٰہی ہے کیونکہ قرب بھی اشتغال بحق ہے اور قرب بلاواسطہ اکمل ہوگا بواسطہ سے گو کسی عارض سے وہ بواسطہ والا انفع ہو چنانچہ اس راعی کو اس سے نفع عظیم پہنچا جو کہ حکایت ہی میں مذکور ہے مگر چونکہ یہ ممکن تھا کہ موسیٰ علیہ السلام ذرا توقف فرماتے اور غور کے بعد قرأن قویہ و نور بصیرت سے اس کا صاحب حال ہونا معلوم کرکے اس وقت سکوت فرماتے کیونکہ اس وقت وہ مکلف نہ تھ ا ور بعد افاقہ کے اس کے جہل کو رفع فرمادیتے تو اس طریق سے اس کا جہل بھی رفع ہوجاتا اور قرب خاص بھی زائل نہ ہوتا، اس لئے حق تعالیٰ شانہ نے اس پر شکایت فرمائیا ور دونوں مذکورہ اشتغالوں کے تفاوت سے اس کو جدا کردن سے تعبیر فرمایا ، پس اس میں جو یہ مضامیں ہیں، بردہ و یبراں خراج و عشیر نیست الخ...مطلب یہ ہے کہ عین غلبۂ حال میں اس سے تعرض مناسب نہ تھا، نہ یہ کہ مکلف ہونے کے وقت بھی وہ مطلق العنان چھوڑ دیا جائے اور شاید: اے معاف یفصل اللہ مایشاء الخ  سے مطلق العنانی کا شبہ پڑے تو اس کی توجیہ یہ ہے کہ شارع کو اختیار ہے اگر کسی شخص کو حکم عام سے کسی قدر مخصوص کردیا جائے جیسا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صہابی کو بکری کے بچہ کی قربانی کی اجازت دے کر فرمایا: ’’ولن تجزئی عن اجل بعدک‘‘ اور ایسی تخصیص باعتبار بعض شرائط وقیود کے مستلزم اطلاق عنان کو نہیں اور مبنی اس تخصیص کا یہ ہوسکتا ہے کہ حق تعالیٰ کو اس راعی کی حالت و قدرت سے معلوم تھا کہ جس مرتبہ تیز یہ پر اس کو
Flag Counter