Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

21 - 756
تظھر فی موطن بصورۃ عرضیۃ محتاجۃ وفی اٰخر بصورۃ مستغنیۃ مستقلۃ فاجعل ذلک تانیسا لک تکسر بہ صولۃ نبوّ طبعک عنہ فی بدو النظر حتی یأتیک الیقین وتتصد الافق المبین ، انتہیٰ بقدر الضرورۃ۔
پس اس تقریر سے جواب ہوگیا استدلال علی امتناع نقل الاعمال بامتناع نقل الاعراض کا اور اسی سے مستدل کی دوسری دلیل عقلی یعنی عدم بقا اعراض اور دلیل نقلی یعنی من جاء بالحسنۃ ...الخ، کا جواب بھی مستفاد ہوگیا گو بلسان غلام اس سے بوجہ ظہور کے تعرض نہیں کیا گیا عدم بقا اعراض کا تو جواب یہ ہوا کہ اگر یہ عدم بقا مان لیا جائے گو اس پر کوئی دلیل صحیح قوی قائم نہیں ہوئی مگر ماننے کی تقدیر پردہ عدم بقاء درصورت عرض کے عرض ہونے کے ہے اور اگر بمجرد صدور دوسرے عالم میں بصورت جوہر یہ منتقل ہوجائے تو پھر بقا میں کیا امتناع ہے اور استدلال بالآیۃ کا جواب یہ ہے کہ اگر یہ تفسیر مان بھی لی جائے تو جب یہ عمل بھی جوہر بن گیا تو محبی ٔ بہ اس پر بھی مثل روح حسن کے صادق آتا ہے، یہ تقریر ان اشعار تک کی ہے وقت محشر ہر عرض راصوائے ست الخ، آگے تنویر دعویٰ امکان مذکور کے لئے چند امثلہ اشیاء جوہر یہ متصورہ فی الذہن کی ہیں جو ذہن میں فی موضوع اور خارج میں لانی موضوع ہیں اس شعر تک گرچہ شاخ و برگ و بیخش الخ اور پھر مضمون مذکور پر ایک نطیر کی تفریح بطور جملہ معترضہ کے ہے گو وہ اس کی مثال نہیں، پس سرے کہ مغز الخ آگے شعر نقل اعراض الخ میں یہ بیان کیا ہے کہ عرض موجود فی مرتبۃ العلم جس طرح کبھی خارج میں جوہر ہوجاتا ہے کما ذکر اسی طرح کبھی عرض بھی رہتا ہے چنانچہ یہ بحث و مقال کہ پہلے سے ذہن میں تھا اور عرض تھا بعد نقل کے خارج میں بھی عرض ہی رہا۔
 اور دوسرے مصرعہ میں پھر ایک نظیر عرض فی مرتبۃ العلم کی جو ہریت فی الخارج کی بیان کی نقلا اعراض است ایں شیر و شغال اور نظیر اس لئے کہا گیا مراد اس مصرعہ میں وجود فی مرتبۃ العلم الالٰہی ہے اور وہ عرض ہونے سے منزہ ہے لتنزہہ عن الامکان، اسی طرح اس کے بعد کے شعر جملہ عالم خود عرض بودند الخ میں اسی مرتبہ علم الٰہی میں تمام عالم کے کالعرض ہونے کو بتلایا پس یہ بھی نظیر ہے آگے شعرایں عرضہا ازچہ زائید میں اختلاف موطن سے جواہر کا عرض ہونا اور عرض کا جوہر ہونا بتلاتے ہین، اس طرح سے کہ اعراض موجودہ فی الدنیا عالم مثال میں صورجوہریہ تھے وہو معنی قولہ ایں عرضہا ازچہ زائید از صور کما زکرتہ قبل عن الشیخ ولیا للہؒ اور صور جوہریہ موجود فی الدنیا علم الٰہی میں کالعرض تھے وہو معنی قولہ دین صورہم ازچہ زائید از فکر اور شعر ایں جہاں یک فکر تست اسی مصرعہ ثانیہ کی شرح ہے اور یہ احکام مذکورہ فی الاشعار القریبہ وجود قبل عالم الدنیا کے متقل تھے آگے وجود بعد الدنیا کے یہی احکام کہ اس میں سے اعظم عرض کا جوہر ہونا ہے مذکور ہیں۔ اس شعر میں عالم اول الی قولہ بندہ ات اور اس کے اعظم ہونے کے سبب یہاں ذکر میں اس کی تخصیص کی گئی آگے تمام مقام کا خلاصہ کہ کبھی جوہر سے عرض اور کبھی عرض سے جوہر ظاہر ہوتا ہے، اس شعر میں فرماتے ہیں، ایں عرض باجوہر الخ۔
تہذیب المقام و تقریب المرام الی عامۃ الافہام
اگر انصاف سے غور کیا جائے تو عرض کا جوہر ہوجانا جس کا کہ تقریر مذکورمیں دعویٰ کیا گیا ہے اس سے زیادہ بعید نہیں ہے کہ جوہر عرض ہوجائے اور حصول الجواہر فی الاذہان میں شب و روز اس کے وقوع کا مشاہدہ کیا جاتا ہے تو پھر آخرت میں اس کا وقوع کیا مستبعد ہے سو یہاں حصول فی الذہن کے وقت جواہر سے لباس مادی کا منخلع ہوکروہ موجود فی موضوع ہوجاتا ہے، وہاں وزن وغیرہ کے وقت عرض پرمادہ ملبوس ہوکر 
Flag Counter