Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

19 - 756
افعال سے استدلال کیا، ان کے اخلاق پر اور حسن السیرۃ کو اس کے اخلاق حسنہ کے سبب باوجود اس کی قبح صورت کے مقبول اور حسن الصورۃ کو اس کے اخلاق ذمیمہ کے سبب باوجود اس کے حسن صورت کے محذول کیا اور یہ استدلال اور اس کے مقتضا کا امتثال یہ کام عارف ہی کا ہے، پس عارف کا سوال ظاہر ہے کہا متحان ہی کے سبب ہوگاوصرح بکونہ امتحاناً بعض المحشین علی قولہ گفت (عبارۃ الحاشیہ چوں شاہ اختیار اوکرد معلوم کرد کہ اوعالم السرست....الخ)۱۲ شاہنشہ...الخ۔
 الواقع بعد الاشعار الواقع بعدہا غیر متصل، اور وہ سوال یہ ہے کہ تو اپنا تو کچھ حال بیان کر کہ تونے اپنی روح کے حسن کرنے کی کیا کوشش کی ہے اور اس کی ضرورت بطور خطابت کے ایک آیت سے بطور تفسیر خاص بیان کی کہ حق تعالیٰ نے من جاء بالحسنہ فرمایا ہے، من عمل بالحسنہ نہیں فرمایا، جس سے اقرب یہ ہے کہ یہ حسنہ عمل نہیں بلکہ مصدر عمل یعنی روح انسانی ہے، جس کو اعمال سے حسن بناکر درگاہ حق میں لانا چاہئے، کیونکہ اوردن کا متعلق جوہر ہوسکتا ہے نہ کہ عرض کیونکہ العرض لایبقی فی آنین پھر آوردن اس کے متعلق کیسے ہوگا؟ ۔
نیز الاعراض : لا تنتقل عن محل الی محل اور آوردن ایک نقل ہے۔ البتہ اعراض یعنی اعمال مکمل س جوہر یعنی روح کے ہوسکتے ہیں، واوردلہ امثلۃ من قولہ چوں زپرہیزی الی قولہ صیقلی کردن ...الخ  غلامؔ نے جواب دیا کہ تم جو عدم نقل اعراض سے استدلال کرتے ہو یہ استدلال ناتمام ہے ، خود یہ مقدمہ ہی ثابت نہیں، پس نقل ممکن ہے گو عدم انتقال بھی ممکن ہے مگر ان دونوں ممکنوں میں نقل اولیٰ بالفول ہے کیونکہ عدم نقل کا قائل ہونا مصلحت عامہ کے کہ وہ جب سنیں گے کہ ہمارے اعمال آخرت میں نہ جائیں گے کم فہمی سے مایوس ہوجاویں گے اور عمل میں سستی کریں گے جس طرح بعض احادیث مبشرہ کو اسی سستی کی مصلحت سے چندے ظاہر نہیں کیا گیا آگے بیان ہے، اعراض کے امکان نقل کا جس کا حاصل یہ ہے کہ اس کے امتناع کی کوئی دلیل نہیں، اصل جواب تو اسی قدر ہے باقی اس کی توضیح ہے۔ 
	حاصل اس کا یہ ہے کہ نقل اعمال میں عقلی اشکال صرف یہ ہے کہ یہ نقل اعراض یعنی اعمال من الدنیا الی الآخرۃ گو تبعاً للموضوع تو ظاہرا الجواز ہے لیکن جس طرح نصوص سے ثابت ہے کہ مثلاً ان کا وزن کیا جائے گا اور ظاہر اُن نصوص سے یہ ہے کہ عامل کا وزن نہ ہوگا، پس یہ نقل تبعاً للموضوع نہیں ہے، پھر اس میں دو احتمال ہیں یا تو وہ اعراض اعراض رہیں گے یا مستحیل الی الجواہر ہوجاویں گے دونوں شق باطل ہیں اول اس لئے کہ نقل اعراض بلا موضوع محال ہے دوسر اس لئے کہ عرض کا جوہر بن جانا محال ہے، پس یہ ہے اس میں اشکال عقلی سو اس کا جواب بہ اختیار شق ثانی ہوسکتا ہے اور ہم اس کا استحالہ نہیں مانتے۔ سند منع یہ ہے کہ ہم خود دنیا ہی میں دیکھتے ہیں کہ اختلاف موطن سے ایک ہی چیز عرض و جوہر ہوسکتی ہے، مثلاً صورت عقلیہ جواہر کہ ذہن میں عرض ہے کیونکہ موجود فی موضوع ہے اور خارج میں جوہر کیونکہ موجود لافی موضوع ہے اور دونوں کی حقیقت ایک ہی ہے، اگرچہ بعض ہی کے نزدیک سہی جو کہ قائل ہیں حضول اسیاء فی الذہن بانفسہا کے اور گو بعض نے عرض وجوہر کی تفسیر میں اذا وجدت فی الخارج کی قید لگاکر اس صورت ذہنیہ پر عرض کے صادق آنے سے انکار کیا ہے مگر اس سے ہمارے اصل مقصود میں خلل نہیں آتا، کیونکہ قول حصول اسیاء بانفسہا پر حقیقتاً واحدہ ہی کا وجود فی موضوع فی موطن اور وجود لا فی موضوع فی موطن تو ثابت ہوا اور یہی اصل مقصود ہے خواہ اس کا نام کچھ بھی رکھ لیا جائے، پس جو نسبت زہن کو خارج کے ساتھ ہے اگر وہی نسبت خارج دنیا کو خراج آخرت کے ساتھ ہو، اور اس وجہ سے یہاں جو اشیاء موجود فی موضوع ہیں وہ وہاں موجود لا فی موضوع ہوجاویں تو اس میں کیا استحالہ ہے، چنانچہ اہل کشف نے اس عالم شہادت پر بمقابلہ عالم غیب کے لفظ خیال وغیرہ کا اطلاق کیا بھی ہے۔ اسی طرح اس عالم شہادت میں ظاہر ہونے کے قابل بھی ایسی اشیاء کا اس عالم غیب میں وجود لافی موضوع ظاہر نصوص سے معلوم ہوتا ہے: ’’کقولہ علیہ السلام لما خلق اللّٰہ الرحم 
Flag Counter