Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

12 - 756
دنیا میں اکارت گیا اور جو کچھ کرتے تھے فضول ہوگا ۔(وما من دابۃ، رکوع:۲) مشرکوں کو حق نہیں کہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں اس حال میں کہ اپنے نفسوں پر کفر کے گواہ ہیں، ان لوگوں کے اعمال کا اکارت ہوگئے۔ (برأت،رکوع:۱۶) اور تم نے بھی فضول باتوں میں خوض کیا جیسا کہ پہلوں نے خوض کیا، ان لوگوں کے اعمال ضائع ہوگئے، دنیا و آخرت میں (برأت،رکوع:۱۵) یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیتوں کا کفر کیا اور اس کی بقا سے انکار کیا، پس ان کے اعمال ضائع گئے ۔ (قال الم اقل لک،رکوع:۱۳) البتہ اگر تونے شرک کیا تو تیرے اعمال ضائع ہوجائیں گے اور تو ناکاموں میں سے ہوجائے گا۔ (فمن اظلم، رکوع:۱۴) اور جنہوں نے کفر کیا ان کے لئے ہلاکت ہوئے اور خدا نے ان کے اعمال غارت کردیئے، یہ اس لئے کہ انہوں نے کلام الٰہی سے کراہت کی تو خدا نے ان کے اعمال کو ضائع کردیا۔ (حم، رکوع:۵)۔
 بلکہ میں کہتا ہوں کہ عدم حبط اعمال کا قول مرحبہ کا قول ہے جو کہتے ہیں کہ ایمان کے ساتھ کوئی معصیت مضر نہیں ہوتی، پس ظاہر یہ ہے کہ تخصیص (جہر) وغیرہ کے قائل ہونے کی ضرورت نہیں یہ وہ بات ہے جو آپ کے ناچیز خادم کے ذہن میں آئی اگر صحیح ہو تو امیدوار قبول ہوں ورنہ مجھ کو مواقع غلطی سے مطلع فرمایا جائے اور مجھے سیدھا راستہ دکھایئے۔ مجھے بھی افادہ فرمایئے ہمیشہ آپ افادہ فرماتے ہیں اور خدا تعالیٰ آپ کا سایہ دراز کرے۔
جواب: 
جاننا چاہئے کہ جس حبط کی نسبت بطور نفی کے اہل سنت والجماعت کی طرف کی گئی ہی، وہ ہے جس کا اثر یہ ہو کہ اعمال گزشتہ بالکل کالعدم ہوجائیں جیسا کہ کفر سے ہوتا ہے کہ نماز اور روزہ بالکل باطل ہوجاتا ہے اور اس پر دوبارہ حج واجب ہوتا ہے، اگر طاقت زادو راحلہ بعد توبہ کے ہوجائے اور اہل حق کے نزدیک اس کے انتفاء میں کوئی شکل نہیں ہوسکتا، ورنہ پھر انہوں نے اپنے فتاویٰ میں بعض معاصی موجب حبط اعمال کے صدور کے بعد اعادئہ حج کا حکم کیوں نہیں کیا، جیسا کہ وہ یہ حکم بعد توبۂ ارتداد کرتے ہیں، پس وہ حبط جس کو آپ نے ترجمہ باب بخاری اور حاشیہ سندھی سے ثابت کیا ہے یہی مذکورہ بالا ہے تو ہم تسلیم نہیں کرتے کہ وہ دونون اس پر دال ہیں اور اگر اس کے سوا حبط کے کوئی دوسرے معنی مراد ہیں مثلاً برکت عمل اور ثواب کا کل اعمال کے یا بعض کے ضائع ہوجانا تو یہ ہمارے دعویٰ انتفاء حبط عن اہل الحق کو مضر نہ ہوگا کیونکہا س حبط کا ہم انکار نہیں کرتے تو اب نزاع صرف لفظی رہ گیا مگر یہ معنی ثانی حبط کے اس آیت میں مناسب نہیں کیونکہ سوق آیت کھلم کھلا اس بات پر دلالت کررہا ہے کہ اس حبط کی شان (جو جہر سے ہو) دیگر معاصی سے زیادہ سخت ہے اور جس بات میں تمام اعمال مشترک ہوں اس میں اشدیۃ کہاں اسی لئے جو احادیث آپ نے نقل کی ہیں ان کو حبط سے کوئی بھی علاقہ نہیں بلکہ ان کا مدلول تو صرف ایک بڑے گناہ میں پڑ جانا ہے، ان میں حبط کسی تفسیر کے موافق بھی لازم نہیں آتا ، رہی تفسیر جامع البیان تو اس میں ترجمہ باب سے زیادہ کوئی بات نہیں یہاں تک کہ اس سے مدعی پر استدلال کیا جائے۔
 اور جو فرق آپ نے معتزلہ و خوارج کے قول میں اور اپنے قول میں کیا ہے تو وہ فرق اچھا ہے اگر اس کی کچھ ضرورت ہوتی مگر ضرورت نہیں جب تک کہ اس کا مبنی یعنی حبط ثابت نہ ہوجائے اور یہ ثابت نہیں ہوا اور جتنی آیات آپ نے بیان کی ہیں وہ مقصود پر بالکل دلالت نہیں کرتیں اور یہ ظاہر ہے۔ رہا آیت حجرات کا حبط پر دلالت کرنا ایمان کے بقا کے ساتھ تو یہ دوسری آیت سے منقوض ہے فرماتے ہیں۔ حق تعالیٰ اے ایمان والو! جو کوئی تمہارے میں سے اپنے دین سے پھر جائے، بات یہ ہے کہ ایمان بالفعل کے اعتبار سے ہے اور حکم کفر آئندہ حالات کے اعتبار سے ہے اور آپ نے جو قول مرحبۂ کی تفسیر اس حبط کی نفی سے کی ہی، اس کے لئے نقل کی ضرورت سے بلکہ ظاہر یہ ہے کہ ان کے قول 
Flag Counter