Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

11 - 756
سے غفلت کی حالت میں) ص:۱۲، مطبوع مصطفائی علامہ سندھی حاشیۂ بخاری میں فرماتے ہیں یعنی مومن کو اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ وہ منافق ہو اور اس وجہ سے اس کے اعمال حبط ہوجائیں اور اس کو اپنے نفاق کی بوجہ کمال غفلت کے خبر بھی نہ ہو یا مطلب یہ ہے کہ مومن کو اپنے اعمال کے حبط ہونے سے ڈرنا چاہئے بوجب گناہوں کی نحوست کے جیسا کہ سب قدر کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک سے اٹھا لیا گیا بوجہ نحوست خصومت کے اور تفسیر جامع البیان میں اس آیت کریمہ کی تفسیر اس طرح کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر آواز بلند نہ کرو بوجہ خوف اس بات کے کہ تمہارے اعمال حبط ہوجائیں اور تم کو ان کے حبط ہونے کی خبر بھی نہ ہو صحیح میں ہے کہ آدمی بعض دفعہ ایک بات اللہ تعالی کی مرضی کے خلاف کہتا ہے جس کی اس کو پرواہ بھی نہیں ہوتی، مگر اس کیو جہ سے اس کو جہنم میں زمیں و آسمان کے فاصلہ سے بھی زیادہ گہرے درجہ میں ڈال دیا جاتا ہے اور میں نے کود صحیح بخاری جلد وم ۹۵۹ مصطفائی میں دیگر الفاظ سے اس حدیث کو دیکھا ہے:
 ابو ہریرہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ بندہ بعض دفعہ ایک بات کہتا ہے جس میں اس کو کوئی بات نہیں معلوم ہوتی اور اس کو جہنم میں مابین مشر ق ومغرب سے زیادہ گہری درجہ میں ڈالا جائے گا۔ ابو ہریرہؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا: حضورؐ نے کہ بندہ بعض دفعہ کوئی بات اللہ کی خوشی کی کہتا ہے جس کی اس کو قدر نہیں ہوتی، حق تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے بہت درجے بلند فرمادیتے ہیں اور بعض دفعہ کوئی بات اللہ کی ناراضی کی کہتا ہے جس کی اس کو پرواہ بھی نہیں ہوتی مگر اس کی وجہ سے جہنم میں جھونکا جائے گا۔
 بس بخاری کا ترجمہ الباب اور تفسیر جامع البیان ان دونوں حدیثوں کے ساتھ مل کر صراحتاً اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ بعض اعمال کبھی دوسرے اعمال کے لئے موجب ابطال ہوجاتے ہیں، پس اس بات کے مان لینے میں کون سی خرابی ہے اور اس قول میں اور معتزلہ اور خوارج کے قول میں بڑا فرق ہے کیونکہ وہ قائل ہیں کہ کبائر بندہ کو ایمان سے نکال دیتے ہیں پھر یا تو وہ کافر ہو جاتا ہے جیسا کہ خوارج کی رائے ہے یا یہ کہ کفر میں بھی داخل نہیں ہوتا اور ایمان و کفر کے بیچ میں ایک مرتبہ نکل آتا ہے، یہ قول معتزلہ کا ہے یہ سب اس مذکورہ بالا قول کے خلاف ہیں، کیونکہ اس قول سے صرف حبط عمل پر دلالت ہوتی ہے نہ کہ زوال ایمان پر اور اس کے لئے اشارہ اس آیت میں بھی موجود ہے کیونکہ حق تعالیٰ نے اس آیت کو اس قول سے شروع فرمایا ہے:’’ یایہا الذین آمنوا‘‘ (اے ایمان والو!)  جس سے اس امر پر تنبیہ ہوتی ہے کہ یہ حبط عمل ایمان باقی رہنے کی حالت میں ہوتا ہے اور اخیر میں یہ قول بڑھایا :’’وانتم لاتشعرون‘‘(اس حال میں کہ تم جانتے بھی نہ ہو) یہ بات بتلانے کے لئے کہ یہ جہر کفر میں بھی داخل نہ کرے گا، کیونکہ کفر کا قصد نہ تھا اور کچھ بعید نہیں کہ یہ حبط عمل اسی طرح یعنی بدون زوال ایمان ہو کیونکہ حق تعالیٰ نے اس آیت کے سوا جہاں کہیں بھی حبط عمل کا ذکر فرمایا ہے، وہاں ساتھ ساتھ خسران دنیا و آخرت کا یا دائمی خول جہنم کا یا وزن نہ ہونے کا اور کسی وعید شدید کا ذکر ضرور کیا ہے اور اس آیت میں ایسی باتیں مذکور نہیں (اب میں اپنی وسعت نظر کے موافق آیتوں کا شمار کرتا ہوں)۔
 حق تعالیٰ فرماتے ہیں اور جو کوئی پھر جائے تمہارے دین میں سے اپنے دین سے اور مرجائے کافر ہوکر پس ان لوگوں کے اعمال کارت ہوگئے دنیا و آخرت میں (سیقول، رکوع:۱۱) اور جو کوئی ایمان کا انکار کرے ان کے اعمال کارت ہوگئے۔ (لایحب اللّٰہ، رکوع:۵) اور مسلمان لوگ کہیں گے :ارے کیا یہ وہی لوگ ہیں کہ بڑے مبالغہ سے قسمیں کھایا کرلتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں، ان لوگوں کیس اری کارروائیں غارت گئیں۔ (لایحب اللّٰہ، رکوع:۱۲)یہی لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں سوائے آگ کے کچھ نہیں اور جو انہوں نے کیا 
Flag Counter