Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

105 - 756
ایک سوا یک واں غریبہ
در قیاس استثنائی با سہل عنوان
قولہ: قیاس استثنائی
	 وہ قیاس ہے الخ اس میں مبتدیوں کے لئے ضرورت ہے کہ دوسرے عنوان سے اس کی حقیقت سمجھائی جائے پھر متن کے عنوان کو اس پر منبطق کر دیا جائے۔ سوسنو قیاس استثنائی وہ ہے جو ایسے دو قضیوں سے مرکب ہو جن میں پہلا قضیہ شرطیہ ہو خواہ متصلہ ہو یا منفصلہ۔؛ پھر منفصلہ میں کواہ حقیقیہ ہو یا مانعۃ الجمع یا مانعۃ الخلو اور دوسرا قضیہ حملیہ ہو اور لکن سے شروع ہواور اس کا مضمون یہ ہے کہ اس میں مقدم کا یا تالی کا اثبات ہو یا مقدم یا تالی کی نفی ہو پس یہ استثنائی کی حقیقت ہے آگے نتیجہ میں تفصیل ہے۔ اگر پہلا قضیہ متصلہ ہو تو اس دوسرے قضیہ میں یا تو مقدم کا اثبات ہوتا ہے اور یا تالی کی نفی اگر اس دوسرے قضیہ میں مقد کا اثبات ہے تو نتیجہ تالی کا اثبات ہے اور اگر اسی دوسرے قضیہ میں تالی کی نفی ہے تو نتیجہ مقدم کی نفی ہے جیسے یوں کہیں کہ جب سورج نکے لئے تو دن موجود ہوگا یہ پہلا قضیہ ہے اور شرطیہ متصلہ ہے پھر کہیں کہ لیکن سورج نکلا ہو اہے دوسرا قضیہ ہے اور حملیہ ہے لیکن سے شروع ہوا ہے اور مضمون اس کا یہ ہے کہ اس میں مقدم کا اثبات ہے تو نتیجہ تالی کا اثبات نکلئے گا یعنی نتیجہ یہ ہوگا کہ دن موجود ہے اس کا نام آگے کی آسانی کے لئے مثال اول رکھتا ہوں اس کو یاد رکھنا اور اگر پہلا قضیہ وہی اوپر والا شرطیہ متصلہ ہے یعنی جب سورج نکلئے گا دن موجود ہوگا اور دوسرا قضیہ یہ کہیں کہ لیکن ان موجود نہیں اس کا مضمون یہ ہے کہ اس میں تالی کی نفی کی گئی ہے تو نتیجہ مقدم کی نفی نکلئے گا یعنی نتیجہ یہ ہوگا کہ سورج نکلا ہوا نہیں ہے اس کا نام مثال ثانی رکھتا ہوں اس عنوان سے استثنائی کی حقیقت خوب سمجھ گئے ہوگے۔ کتاب کے متن میں یہی دو مثالیں مذکور ہیں۔
	 اب کتاب کی تعریف کو منطبق کرتا ہوں۔یہ تو تم کو معلوم ہوگیا کہ مثال اول میں نتیجہ یہ ہے کہ دن موجود ہے اب دیکھو کہ یہی نتیجہ اس مثال کے قیاس میں مذکور  ہے کیونکہ یہ قضیہ اول کی تالی ہے جو قضیہ میں مذکور ہوا کرتی ہے اسی طرح سمجھو کہ مثال ثانی میں نتیجہ یہ ہے کہ سورج نکلا ہوا نہیں ہے اب دیکھو کہ اس نتیجہ کی نقیض اس مثال کے قیاس میں مذکور ہے کیونکہ قضیہ اول کا مقدم ہے کہ سورج نکلئے گا اور یہ نتیجہ اس کی نقیض ہے (گو روابط بدلئے ہوئے ہوں) پس مثال اول میں یہ بات صادق آئی کہ اس قیاس میں خود نتیجہ مذکور ہے اور مثال ثانی میں یہ بات صادق آئی کہ اس قیاس میں نتیجہ کی نقیض مذکور ہے۔ پس کتاب میں اور دوسری کتابوں میں بھی اس طرح تعریف کر دی گئی کہ قیاس استثنائی وہ ہے جس میں نتیجہ یا نقیض نتیجہ مذکور ہو۔ پہلے مبتدی اس میں چکراتا ہے کوئی تو نہ سمجھنے سے اور کوئی اس وجہ سے کہ اس تعریف کا سمجھنا موقوف ہے اس پر کہ اول نتیجہ اس قیاس کا معلوم ہو اور نتیجہ جاننا اس پر موقوف ہے کہ اول اس قیاس استثنائی کی حقیقت معلوم ہو تاکہ قیاس استثنائی کے نتیجہ نکالنے کی جو قاعدے ہیں ان قاعدوں کے موافق نتیجہ نکال سکے میری توضیح کے بعد اول آسانی سے حقیقت استثنائی کی سمجھ میں آگئی اور کاتبوں میں جو تعریف مذکور ہے وہ بھی آسانی سے اس پر منطبق ہوگئی ۔ 
	اور جو قیاس ایسا نہ ہو اقترانی ہے جیسے ہر انسان جاندار ہے اور ہر جاندار جسم ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ ہر انسان جسم ہے سیکھو اس قیاس میں نہ بعینہ نتیجہ مذکور ہے یعنی ہر انسان جسم ہے اور نہ اس کی نقیض مذکور ہے یعنی بعض انسان جسم نہیں سمجھانے کی لئے تو اتنا ہی کافی تھا مگر آگے چل کر کارآمد ہونے کے لئے جس قیاس استثنائی کا پہلا قضیہ منفصلہ ہو اس کے نتائج کی تفصیل بھی بتلائے دیتا ہوں وہ اس طرح ہے کہ دیکھنا چاہئے کہ 
Flag Counter