Deobandi Books

بوادر النوادر - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

102 - 756
جواب:
	مفصلا سمجھنا تو اس مسئلہ کا زبانی آسان ہے باقی مجملاً اتنا لکھے دیتا ہوں کہ صحبت کا حلال عند اللہ ہونا موقوف ہے نکاح کے منعقد ہو جانے پر خواہ طریق انعقاد میں گناہ ہی ہو مثؒاً اگر کوئی شخص کسی کو قتل کی دھمکی دے کر اس کی بیبی کو طلاق دلوالئے اور وہ جب طلاق دے دے تو بعد عدت کے عورت کو قتل کی دھمکی دے کر اس طریق کے اختیار کرنے کا اس کو سخت گناہ ہوگ۔ پس اسی طرح اس طریق مذکور فی السؤال میں یہ شخص گناہ گار ہوگا لیکن نکاح منعقدہو جائے گا پس صحبت کے حلال ہونے پر کوئی شبہ نہیں ہو سکتا کہ وہ فرع ہے صحتِ قضاء قاضی ہے دو شخصوں کی شہادت پر جن کو قاضی سچا سمجھتا ہے بشرطیکہ عورت کسی کی منکوحہ ومعتدہ نہ ہو۔ باقی قضاء قاضی کا سبب ہوجانا یہ لکھنے سے سمجھ میں نہ آئے گا کبھی ملاقات کے وقت پوچھیے گا انشاء اللہ تعالیٰ اطمینان کر دوں گا۔ ۲۲جمادی الاولیٰ ۳۳۳ا؁ھ


ضمیمہ نمبر:ا
متعلقہ مسئلہ بالا جس کی سائل بالا سے ملاقات کے وقت زبانی تقریر کی گئی
اصل؟؟؟ میں(حاشیہ نمبر۱: اصل مطبوعہ میںاسی طرح یہاں ؟؟؟؟؟رقم لکھی ہوئی ہے مگر اس رقم کا حاشیہ لکھنے سے رہ گیا اس وقت یہی اسکی تکمیل قلمی مسودہ سامنے نمونے کے نہیں ہو سکی۱۲ محمد شفیع عفی عنہ) سب حقوق ملک حق تعالیٰ کی ہیں مگر احتیاج عبد کی مصلحت سے حق تعالیٰ نے ان حقوق کے احداث (حاشیہ نمبر۲ :وجود میں لانا۱۲) انہائ(حاشیہ نمبر۳:ختم کر دینا۱۲ محمدشفیع )کا (کہ عبارت ہی عقد وفسخ سے) اختیار عبد کو بھی دے دیا اور جس طرح عبد کی مصلحت اس کو متقضی ہے کہ اس کواس کے نفس میں یہ اختیارات دیے جائیں اسی طرح بعض احوال میں اس کی مصلحت اس کو بھی مقتضی ہے کہ اس کے نفس میں اس کے حکام کو بھی یہ اختیارات دیے جائیں اور وہ بعض احوال اختلاف ونزاء فیما بین کا حال ہے کیونکہ ایسے وقت می بجز عطاء اختیار للحکام کے ان حقوق کے طے ہونے کی کوئی صورت نہیں اور گو اس میں یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ صورت اختیار بھی اس کے لئے کافی ہے حقیقت اختیار کی حاجت نہیں لیکن ایسا ہونے سے نزاع وفساد کبھی منقطع نہیں ہو سکتا۔ مثلاً اس مدعیٰ علیہا کا واقع میں اگر نکاح صحیح نہ ہوا تو ہمیشہ وہ اپنے کو بچائے گی یا مرد مدعی عورت کے حقوق ادا نہ کرنا اور ہمیشہ تباغض وتزاحم رہے گا پس صورت اختیار کیسے کافی ہوگی پس ضرور حقیقت اختیار ثابت ہونا چاہئے اور چونکہ ملک کا اثبات اور رفع خود اپنے نفس میں تصرف کرنے کے وقت بھی اسی عقدوفسخ پر مبنی ہے اس لئے حکام کے اختیارات کا محل بھی یہی ہوگا املاک مرسلہ نہ ہوں گے کہ وہ بلا واسطہ عقدوفسخ کے خود صاحب حق کے تصرف سے بھی مثبت ورافع حقوق کے نہیں ہوتے گو بعض جگہ اباحت ہو جاتی ہے کالاموال اور بعض جگہ اباحت بھی ہیں ہوتی کالفروج اس لئے ایسے اختیارات حکام کو عطا فرمئے ہیں یا نہیں سو اس کے لئے حدیث شاہداک زوجاک کہ مرفوع حکمی ہے۔

Flag Counter