Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 25 اپریل تا 1 مئی 2014

ہ رسالہ

8 - 11
بارش کی دعا
جمعہ کا دن تھا۔ مسجد نبوی میں مسلمان نمازِ جمعہ کے لیے مسجد نبوی میں جمع تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرمارہے تھے۔ اس دوران ایک شخص مسجد کے اندر داخل ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوکر خطبہ ارشاد فرمارہے تھے۔ وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آکر کھڑا ہوا اور کہا: ’’اے اللہ کے رسول! مال مویشی مرگئے، لوگ ہلاک ہوگئے، اللہ سے ہمارے لیے دعا فرمائیے کہ وہ ہمیں بارش سے نوازے۔‘‘ آپؐ نے اپنے ہاتھ دُعا کے لیے اُٹھائے اور تین مرتبہ فرمایا: ’’اے اللہ! ہمیں بارش عطا کر، اے اللہ! ہمیں بارش عطا کر، ہمیں بارش عطا کر۔‘‘ حضرت انسؓ جو واقعہ کے روای ہیں، فرماتے ہیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے، اس وقت ہمیں آسمان پر بادل کا کوئی بھی ٹکڑا نظر نہیں آرہا تھا۔ آپؐ کی دُعا کے بعد کوہِ سلع سے ڈھال کی مانند ایک بادل کا ٹکڑا اُٹھا اور آسمان کے وسط میں آکر پھیل گیا۔ پھر لگاتار برسنے لگا اور برستا چلاگیا۔ یہاں تک کہ پورا ہفتہ بارش ہوتی رہی۔ ہم سات دن تک سورج کو نہ دیکھ سکے۔ اگلے جمعہ کے روز جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں خطبہ ارشاد فرمارہے تھے، دروازے سے اسی طرح ایک آدمی داخل ہوا اور آپؐ کے سامنے آکر درخواست کی: ’’یارسول اللہ! لوگوں کے اموال ضائع ہورہے ہیں، سارے راستے بند ہوچکے ہیں، آپ اللہ تعالیٰ سے دُعا فرمائیے کہ بارش بند کردے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے اور فرمایا:

’’اے اللہ! ہمارے آس پاس برسادے، ہمارے شہروں میں نہیں، ٹیلوں اور پہاڑیوں پر برسادے، وادیوں میں جہاں درخت اور سبزہ اُگتا ہے وہاں برسادے۔‘‘ حضرت انسؓ کہتے ہیں آپؐ کی دُعا کے بعد بادل چھٹ گئے اور دھوپ نکل آئی۔


ملک قحط کی طرف جارہا ہے۔ اس کے لیے مستقل بنیادوں پر اہتمام اور سنجیدہ اقدامات کے ساتھ ساتھ ملک میں نمازِ استسقاء کا اہتمام کرنا بھی ضروری ہے۔

اس حدیث کی ایک اور روایت میں ہے کہ اس کے بعد مدینہ منورہ کی آبادی سے بادل چھٹ گیا اور آس پاس کی پہاڑیوں پر برسنے لگا۔ مدینہ منورہ کی وادی ’’قناۃ‘‘ ایک مہینے تک برستی رہی۔ آس پاس سے جو بھی آتا، بارش ہی بارش کی خبر سناتا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بارش کی دُعا کے لیے شہر سے باہر نکل گئے۔ سارے لوگوں کو ساتھ لے کر میدان میں دو رکعت نماز ادا فرمائی اور بارش کے لیے دُعا کی۔ بارش نہ ہونے کی صورت میں میدان میں نکل کر دو رکعت نماز ادا کرکے اللہ کے سامنے اپنی عاجزی اور ضرورت کا اظہار کرنا اور بارش طلب کرنا سنت ہے۔ آپؐ کے بعد سے لے کر اب تک اُمتِ مسلمہ بارش اور پانی کے بحران کے وقت اس سنت پر عمل کرتی رہی ہے۔ عرب ممالک میں اب بھی باقاعدہ اس پر سرکاری سطح پر عمل ہوتا ہے، لیکن پاکستان میں یہ سنت تقریباً متروک ہوگئی ہے۔ سرکار کو تو ایسی چیزوں سے گویا کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔ عوام الناس اور علماء بھی اس مسئلے میں لاتعلق نظر آتے ہیں۔ کراچی میں پانی کا مسئلہ سنگین صورتحال اختیار کررہا ہے۔ تھر اور سندھ کے دیگر علاقوں میں ایک جان لیوا قحط جاری ہے۔ لاکھوں کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کا مسئلہ ہے۔ بارش نہیں ہوگی تو زندگی رُک جائے گی۔ قحط صرف دیہاتی اور صحرائی زندگی کو متاثر نہیں کرتا بلکہ اس سے شہری زندگی بھی مسائل کا شکار ہوجاتی ہے۔ دریائوں میں پانی نہ ہو تو منڈیوں میں سبزی اناج، پھل اور خوراک آنا بند ہوجائے گا۔ ماحول میں آلودگی اور بیماریاں پیدا ہوں گی۔ دیہاتی آبادی نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے جس سے شہروں کے انتظام میں خلل آجاتا ہے۔
کراچی جیسے عظیم آبادی والا شہر بارشوں کے پانی پر ہی گزارہ کرتا ہے۔ حالیہ خشک سالی میں پانی کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہوگئے۔ خدانخواستہ اگر یہی صورتحال رہتی ہے تو ’’تھر‘‘ جیسی مشکلات ہر جگہ پیش آسکتی ہیں۔ حکومت سندھ نے تو تھر کی ذمہ داری بیوروکریسی پر ڈال دی۔ بیوروکریسی نے سندھ حکومت پر نتیجہ یہ کہ دونوں کا قصور نہیں، قصور صرف عوام کا ہے، لیکن جو ہوا اس کو واپس نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ آیندہ کے لیے احتیاط سب کی ذمہ داری ہے۔ ہم مسلمان ہیں۔ ہمیں اللہ کے سامنے اپنا ہر مسئلہ رکھنا چاہیے۔ احتیاطی تدابیر اور بندوبست بھی اللہ کا حکم اس سے بھی غافل نہ ہوں۔ اللہ سے ہمیں اپنا تعلق جوڑے رکھیں۔
رزق کے خزانے اللہ کی ملکیت میں ہیں۔ پانی کی قلت دور کرنے کے لیے جس طرح تدابیر اور بندوبست کا فقدان نظر آتا ہے، اس طرح اللہ سے مانگنے کے حوالے سے بھی بے نیازی پائی جاتی ہے۔ حکومت اور بااختیار حلقے ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے حوالے سے بالکل لاپروا نظر آتے ہیں۔ ڈیموں کی تعمیر ہمارے ہاں بدقسمتی سے آپس کی سیاسی منافقت کا شکار ہے۔ وہ سندھ جو آج کل قحط کی زد میں ہے، اس کی سیاست میں ایسے عناصر طاقتور ہیں جو نامعلوم وجوہ کی بنیا دپر ملک میں ڈیم بنانے کے خلاف ہیں۔ ملک کے ڈیموں کی ضرورت پوری دنیا میں مسلم ہے، مگر بدقسمتی سے پاکستانی سیاست میں عصبیت اور قوم پرستی کی نحوست کے عمل دخل کی وجہ سے ڈیموں کی تعمیر بھی ایک متنازع مسئلہ بن گئی ہے۔
آنے جانے والی حکومتوں کو مستقل بنیادوں پر پانی کے مسائل حل کرنے میں شاید زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ بھارت کی طرف سے آنے والے دریائوں پر اس کا قبضہ ہے۔ ملک میں پانی کی قلت روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ملک قحط کی طرف جارہا ہے۔ اس کے لیے مستقل بنیادوں پر اہتمام اور سنجیدہ اقدامات کے ساتھ ساتھ ملک میں نمازِ استسقاء کا اہتمام کرنا بھی ضروری ہے۔ شاید اس سنت کے علی العموم ترک کرنے کی وجہ سے ہمارے ہاں پانی کے مسائل بہت زیادہ سنگین صورت اختیار کررہے ہیں۔
Flag Counter