Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 25 اپریل تا 1 مئی 2014

ہ رسالہ

10 - 11
غور و فکر کے لیے 
ہم عوام ہیں۔ کچھ لوگ تو کہتے ہیں کہ عوام طاقت کا سرچشمہ ہیں، حالانکہ یہ بات غلط ہے۔ طاقت و قوت سب اللہ کی ہے۔ طاقت و قوت کا سرچشمہ بس اس کی ہی ذات ہے۔ ہم عوام ہیں اور یہ ملک ہمارا ہے۔ یہ ہم سب کا پیارا پاکستان ہے۔ یہاں کی ہر بھینس ہماری ہے حالانکہ محاورہ ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس مگر یہ غلط بات ہے جو بھینس کا مالک ہے بھینس اسی کی ہے۔ اس ملک کی ساری بھینسیں یہاں کی عوام کی ملکیت ہیں اور یہ کہ ہم عوام ہیں۔ انسان ہیں بھینسیں نہیں کہ ہمیں طاقت، قوت اور لاٹھی کے زور پر چلایا یا ہنکایا جائے۔ ہم عوام ہیں اور اس ملک میں قوانین ہمارے مفاد میں ہی بننے چاہییں، حالانکہ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ قوانین غیروں اور گوروں کے مفاد میں بنائے جائیں، لیکن یہ سوچ اور طریقہ غلط ہے۔ یہاں کے قوانین عوام کے مفاد میں ہونے چاہییں۔ پاکستان میں اگرچہ تعلیم عام نہیں ہے، مگر پڑھے لکھوں کی عوام قدر کرتے ہیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ پڑھے لکھوں کی حکومت بھی قدر کرے۔ تو کیا حکومت سے یہ مطالبہ کرنا کہ پڑھے لکھے لوگوں کی قدر کی جائے، ایک غلط مطالبہ ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ غلط نہیں ہے

بلکہ بالکل صحیح مطالبہ ہے۔ تو کچھ مطالبات پیش خدمت ہیں:
’’اساتذہ کا ماہانہ وظیفہ معاشرے کے باقی تمام شعبۂ ہائے زندگی میں کام کرنے الے افراد سے زیادہ ہو۔ تمام NGO's کو دوسرے ممالک سے سرکاری و حکومتی سطح پر جو فنڈنگ ہو اسے منظر عام پر لانے کا پابند بنایا جائے۔  مساجد و مدارس اور تمام مذہبی  عبادت گاہوں کے بجلی و گیس کے بل کے الگ  سے اور خصوصی کم ٹیرف والے بل جاری کیے جائیں۔ ان کی کوئی حد متعین نہ ہو کہ اتنے یونٹ ہوگئے تو بل بڑھ جائے گا۔ نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہونے والے اور بم دھماکوں میں جان سے ہاتھ دھونے والے ہر شخص کے اہل خانہ کی کفالت دس سال تک حکومت اپنے ذمہ لے۔‘‘ 

یہ وہ مطالبات ہیں جن کا فائدہ ہر طبقے تک بلا تفریق رنگ و نسل اور بلاامتیاز مذہب و ملت پہنچے گا۔ کچھ نہ بھی ہوا تو کم از کم شعور تو بیدار ہوگا۔ اس گھٹن زدہ اور حبس زدہ ماحول میں غور و فکر کے نئے در کھلیں گے۔
Flag Counter