کب تک؟
ہمارے دفتر کے ایک ساتھی (اللہ انہیں جنت نصیب کرے) اکثر مذاق میں اس جملے پر بات ختم کرتے تھے: ’’آپ جانیں یا آپ کا پاکستان جانیں‘‘ لیکن یہ مذاق آج ہم میں سے بہت سوں کا مزاج بن چکا ہے۔ ہم وطن کی محبت میں بظاہر دیوانے ہوئے جاتے ہیں، قومی دنوں پر گھروں کو جھنڈوں اور جھنڈیوں سے سجا بھی لیتے ہیں، قومی ترانوں پر جھوم بھی جاتے ہیں اور اپنے چہرے پر پرچم بھی پینٹ کرالیتے ہیں۔ ہم ہری قمیص اور سفید شلوارکی صورت میں جھنڈا زیب تن کرلیتے ہیں، مگر جب وطن کے فائدے اور اپنے نقصان کی بات آتی ہے تو ہم میں سے کئی ملک سے زیادہ اپنے آپ کو ترجیح دیتے ہیں۔ اپنے نام کے لیے وطن بدنام ہو بھی جائے تو پروا نہیں کرتے۔ ہمارا حال اس جیب کترے جیسا ہوجاتا ہے جس نے ایک مسلمان کی جیب کاٹ لی تھی اور عیسائی کا بٹوہ اس خیال سے واپس کردیا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت نہ کردیں۔ ایسا ہی کچھ چند سال پہلے ہمارے ماموں کے ساتھ ہوا تھا۔ ان سمیت 10 افراد کو ٹریول ایجنٹ نے لندن جانے کے سہانے سپنے دکھائے اور ان سے 30 لاکھ لوٹ کر فرار ہوگیا۔ اسی طرح ہمارے ایک جاننے والے کھیل کا سامان تیار کراکے ہانگ کانگ لے جاتے تھے۔ ان کو دیارِ غیر میں ہیپا ٹائٹس ہوگیا اور ان کی بے دخلی کے آرڈر آگئے۔
بدقسمتی سے ان کا ایک سیکرٹری ان کا ہم نام تھا،
اس نے انہیں پیش کش کی کہ وہ کمپنی ختم کرنے کی بجائے ان کے نام کردیں تو وہ ماہانہ کاروباری منافع انہیں بھجواتے رہیں گے۔ یہ مان گئے اور پر سکون ہوکر پاکستان لوٹ آئے، لیکن وہ منافع آنا تھا نہ آیا۔ رہی سہی کسر ہیپاٹائٹس نے پوری کردی۔ آج کل وہ ایک قبر میں آرام فرما ہیں۔ کڑوا ہی سہی سچ ہے کہ اچھے خوابوں کو تلخ تعبیر میں بدلنے والوں میں پاکستانی کسی سے کم نہیں۔ خواص بھی اس حمام میں بے لباس ہیں۔ ہمارا حکمران طبقہ اقتدار سنبھالنے کے بعد کرپشن ختم کرنے کی بجائے بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنی کشتی بچانے کے لیے دوسرے کے جہاز میں سوراخ کرنے سے آج تک کسی کسی نے ہی گریز کیا ہے۔ ہر حکمران بڑے فیصلے خود کرکے اس کے نتائج آنے والی حکومت کو بھگتنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں پی پی حکومت کے آخری دنوں میں نت نئے اور بڑے بڑے منصوبے شروع کیے گئے جن میں ایک پاک ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ بھی تھا۔ اسے تیار کرنے والے بھی جانتے تھے کہ یہ جتنا پر کشش ہے اس سے زیادہ ناقابل عمل بھی ہے۔ ان کو بھی پتا تھا کہ پابندیوں کے باعث اس کو عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکے گا، مگر اس وقت انتخابی مہم چمکانے اور واہ واہ کے لیے امریکی دبائو مسترد کرنے کا پیغام دیا گیا۔ نتیجہ ان دنوں نواز حکومت کو سہنا پڑ رہا ہے۔
منصوبے پر عمل درآمد کے لیے کوئی بھی کمپنی آمادہ نہیں ہے، جبکہ معاہدے کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ اگر دسمبر 2014ء تک گیس پائپ لائن نہ بنائی تو پاکستان کوماہانہ جرمانہ بھرنا پڑے گا۔ ایران نے نظرثانی کی پاکستان کی تمام اپیلیں بھی مسترد کردی ہیں۔ اب جنوری2015ء کو نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی پاکستان کی معیشت پر نیا اور مستقل بوجھ پڑنے جارہا ہے جس کی بنیاد سابق صدر زرداری نے بڑے عزم سے رکھی تھی۔ یہ ایک مثال ہے۔ کچھ مثالیں ہمارے آس پاس بھی موجود ہیں، مگر جانے کیوں اس میں ہمارے بڑوں کی طرح اپنے ملک سے پہلے اپنے مفادات دیکھنے کا جذبہ نہیں؟ اس میں سبق پوشیدہ ہیں ۔ سب جانتے ہیں پاکستان نے بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اس کی منظوری کابینہ کے ایک اجلاس کی دوری پر تھی، تاہم اطلاعات کے مطابق بھارت نے پاکستان کو مشورہ دیا کہ بھارت کے انتخابات ہورہے ہیں لہٰذا اتنے بڑے فیصلے کے لیے نئی حکومت کا انتظار کرلیا جائے۔ افغانستان میں امریکا نے سیکورٹی معاہدے کے لیے کرزئی کو منانے کے خاطر پورا زور لگادیا، مگر کرزئی جیسے کٹھ پتلی حکمران نے بھی جاتے جاتے ملکی مفادات کو ٹھیس پہنچانے سے گریز کیا۔ سوال یہ ہے ہماری حکومتیں ایسی کیوں نہیں ہوتیں؟ یہ اپنے مفادات کی بجائے ملک کا فائدہ کس دن سوچیں گی؟ جوابی سوال یہ ہے کہ آخر ہم عوام کس دن اپنوں ہی کو دھوکا دینا بند کریں گے؟ کب تک ہم اپنے وطن پر خود کو ترجیح دیتے رہیں گے؟