Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 25 اپریل تا 1 مئی 2014

ہ رسالہ

4 - 11
بحران در بحران
وزیر باتدبیر بادشاہ سلامت کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جھک کر سلام کیا اور ہاتھ جوڑ کر عرض گزار ہوا: ’’ بادشاہ سلامت! میری حالت غیر ہے۔ آفات نے میرے گھر ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔ پہلے والد کا سایہ اٹھا اور اب ماں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے۔ حکیموں کی اُجرت، خاندان کی کفالت کا بوجھ اٹھانا مشکل ہورہا ہے۔ میری حالت پر رحم کھائیے اوروظیفے کا حکم ارشاد فرمایے۔‘‘ بادشاہ رحمدل تھا۔ وزیر کو پاس بلایا۔ کندھا تھپتھپایا اور وزیرخزانہ کو حکم دیا: ’’اس کے وظیفے میں 5 درہم کا اضافہ کردیا جائے۔‘‘ وزیر نے سر جھکایا۔ دونوں ہاتھ جوڑ کر بادشاہ کو سلام کیا اور رخصت ہو گیا۔

تین دن بعد بادشاہ کا دربار پھر لگا، لیکن وزیر باتدبیر وزراء کی قطار میں نظر نہ آکر بادشاہ نے اس کے بارے میں پوچھا۔ سب وزیروں، مشیروں نے سر جھکادیے۔ کسی کو علم نہیں تھا وزیرباتدبیر کہاں ہے؟ اسی اثنا میں وہ روتا ہوا دربار میں حاضر ہوگیا۔ شاہی خادم آگے بڑھے۔ انہوں نے دربار کے آداب ملحوظ خاطر رکھنے کی یاددہانی کرائی، مگر وہ مسلسل روئے جارہا تھا۔ بادشاہ سے اس کی حالت دیکھی نہ گئی۔ اسے پاس بلایااور حال دریافت کیا۔ وزیربادشاہ کے سامنے دو زانوں ہو کر بیٹھا۔ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ ظل شاہی نے رونے کی وجہ پوچھی۔ وزیر نے ہچکی آمیز لہجے میں عرض کی: ’’بادشاہ سلامت

! میری والدہ بھی رات گئے پردہ فرما گئی۔ میری حالت بہت پتلی ہے۔ میرے پاس اس کے کفن دفن کی لیے کچھ نہیں۔ آپ شاہی خزانے سے میری والدہ کے کفن دفن کی لیے خصوصی انتظام کا حکم دیجیے۔ ۔ میرے وظیفے میں مناسب اضافے کا حکم بھی صادر فرمایے۔‘‘ بادشاہ کو پھر رحم آگیا۔ اس نے سرکاری طور پر کفن دفن اور وظیفے میں 5 درہم مزید اضافے کا حکم بھی دے دیا۔ وزیر نے سلام کیا اور دربار سے رخصت ہوگیا۔
چند دن بعد وزیرپھر روتا ہوا حاضر ہوا۔ بادشاہ نے پھر پوچھا: ’’اب کیا ہوا؟‘‘ وزیرنے اس بار بیوی کی حالت غیر کا قصہ سنایا۔ وظیفے میں 5 درہم کا ایک بار پھراضافہ کرایا اور چلتا بنا۔ یہ سلسلہ مہینوں چلتا رہا۔ وزیر آتا، کسی مصیبت کاتذکرہ چھیڑتا، روتا دھوتا اور شاہی خزانے سے مدد لیتا۔ وظیفے میں اضافہ کرواتا اور چلا جاتا۔ وزیر کے اس طرزِ عمل پر ایک دن بادشاہ سلامت کو غصہ آگیا۔ اس نے خادموں کو سواری تیار کرنے کا حکم دیا۔ وزیر کو ساتھ لیا اور اس کے گھر روانہ ہوگیا۔ بادشاہ سلامت جب وزیر کے محلے میں پہنچا تو داخلی دروازے پر ایک سفید ریش بزرگ شاہی سواری کے آگے کھڑا ہو گیا۔ بادشادہ نیچے اترا۔ باباجی کو سینے سے لگایا اور ان سے خیریت جاننا چاہی۔ بابا جی نے بادشاہ کی رحم دلی دیکھی تو رونا شروع کر دیا ۔ ساتھ ہی سوال دراز کیا: ’’بادشاہ سلامت! میرا اکلوتے بیٹے کو ڈاکوئوں نے چند دن پہلے قتل کردیا ۔ اب پورے خاندان کا بوجھ مجھ ناتواں کے کندھوں پر آن پڑا۔ آپ شاہی خزانے سے میرے لیے خصوصی وظیفہ جاری کروائیں۔‘‘ بادشاہ نے خادموں کو حکم دیا، وظیفہ جاری ہوگیا۔ باباجی سے دُعا لے کر آگے چل پڑا۔
وزیرشاہی سواری کی پچھلی نشست پر دُبک کر بیٹھا تھا۔ جب سواری وزیر کے گھر کی گلی میں پہنچی تو گلی کی نکڑ پر ایک مائی آلتی پالتی مارے بیٹھی آہ و بقا کر رہی تھی۔ بادشاہ نے سواری روکی۔ نیچے اترا اوربڑھیا سے رونے کی وجہ پوچھی۔ بوڑھی مائی نے بادشاہ کو دیکھا تو چیخ و پکار شروع کردی۔ آہ و فغاں کے ساتھ بادشاہ سے سوال دراز کیا: ’’بادشاہ سلامت! میرا خاوند وفات پاگیا۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ ان کی روزی روٹی کا کوئی ذریعہ نہیں۔ اللہ نے مجھ پر کرم کردیا۔ آج آپ آ گئے۔ میرے تو باگ جاگ گئے۔ میری حالت پر رحم کیجیے۔ مجھے شاہی خزانے سے مدد عنایت کیجیے۔‘‘
بڑھیا کی چیخ و پکار سن کر اہلِ محلہ بھی باہر آگئے۔ انہوں نے بادشاہ سلامت کو دیکھا تو ششدر رہ گئے۔ بادشاہ نے بڑھیا کے لیے وظیفہ جاری کرنے کا حکم سنایا۔ شاہی سواری پر بیٹھنے کی لیے ابھی قدم رکاب پر رکھا ہی تھا کہ ایک بزرگ نے آواز دی: ’’ظلِ شاہی! جان کی اَمان پائوں تو کچھ عرض کروں؟‘‘ بادشاہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ ہاتھ کے اشارے سے اجازت دی۔ بزرگ عرض کرنے لگا: ’’بادشاہ سلامت! یہ بڑھیا، اس کا خاوند اور اس کا بیٹایہ تینوں نسلی بھکاری ہیں۔ یہ بھوکے ننگے نہیں یہ فطرتاً مسکین و محتاج ہیں۔ اس محلے میں سب سے بڑا گھر ان کا ہے، سب سے اچھا کھانا، سب سے اچھا پہننا اور سب سے زیادہ سہولیات ان کو میسر ہیں۔ اس کا خاوند خلافتِ عثمانیہ میں قاضی کے درجے پر فائز تھا۔ اس کا بیٹا آپ کا وزیرہے جو آپ کی شاہی سواری کی پچھلی نشست پر بیٹھا ہے۔‘‘ بادشاہ کو حقیقت حال جان کر شدید غصہ آیا۔ تینوں کو گرفتار کر کے شاہی قید خانے میں ڈالنے کا حکم دے دیا۔


انصاف پسند مؤرخ جب اہلِ ہند کے ساتھ محمد بن قاسمؒ، محمود غزنویؒ، قطب الدین ایبکؒ اور شہاب الدین غوریؒ جیسے فاتحین کا حسن سلوک دیکھتا ہے تو وہ مسلمانوں کی اخلاقی بلندی کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

بحیثیت قوم ہمارا حال بھی اس وزیر اور اس کے خاندان سے زیادہ مختلف نہیں۔ ہم ایک ایسی قوم ہیں جو ہر وقت مصائب و آلام میں گھرے رہنے کا شکوہ کرتے رہتے ہیں۔ جو ہمہ وقت روتے رہتے ہیں۔ کبھی مہنگائی کا رونا، کبھی لوڈشیڈنگ کا رونا، کبھی غربت و بے روزگاری کی آہیں، کبھی کاروبار میں مندی کی سسکیاں، کبھی پٹرول کے نرخوں پر احتجاج، کبھی آٹے کی قلت پر آہ و فغاں، کبھی دہشت گردی پر شور، کبھی کارخانے کی بندش پر واویلا اور کبھی انصاف و حقوق کے نام پر آہ و بقا، یہ ہماری فطرت بن چکی۔ اگر ہمارے لیے آسمان سے من و سلویٰ بھی اُترنا شروع ہوجائے ہم تب بھی خوش نہیں رہ سکتے۔
آپ زیادہ دور نہ جائیے۔ آپ اپنی تاریخ کے صرف چودہ، پندرہ برسوں کا محاسبہ کرلیجیے۔ پرویز مشرف کا دور شروع ہوا تو رئیل اسٹیٹ میں ریکارڈ بوم آیا۔ کھکھ پتی ارب پتی ہوگئے۔ انڈسٹری کا پہیہ چلنے لگا۔ خوشحالی اور ترقی کا دور دورہ شروع ہوا۔ اس چیز سے اختلاف الگ کہ پرویز مشرف وارد کیسے ہوا؟ جمہوریت کے خلاف کیا اقدامات اٹھائے؟ اس سے بھی انحراف نہیں کہ پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ میں دھکیلا۔ اپنے ہی شہری دشمنوں کے ہاتھ بیچ دیے۔ منبر و محراب کا تقدس پامال کیا۔ اسلام کو شدید نقصان پہنچایا۔ آزادخیالی اور روشن خیالی کے نام پر ملک کو مغربی اور بھارتی کلچر میں رنگنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن یہ حقیقت ہے معاشی لحاظ سے پاکستان بہت بہتر تھا، لیکن اس کے باوجود یہ قوم خوش نہیں تھی۔ قوم کا ہرفرد پرویز مشرف کی لیے جولیاں اُٹھا کر بددعا کررہا تھا۔ اس پرویز مشرف جس کے آنے پر اس قوم نے مٹھائیاں بانٹیں، اسی قوم نے اس کے الوداع ہونے پر لڈو کھائے۔
مشرف گارڈ آف آنر لے کر رخصت ہوا تو آصف علی زرداری کا دور شروع ہوا۔ کرپشن، بدعنوانی، فراڈ اور قومی خزانے کو کوڑیوں کا محتاج کردیا۔ ملک دہشت گردی کی ظلمتوں کا شکار ہوگیا۔ لوڈشیڈنگ کے اندھیروں میں لپٹ گیا۔ لاقانونیت کے آگ نے امن و امان کے گلستان کو جلا کر بھسم کر دیا۔ قوم پر حقیقتاً یہ ایک مشکل وقت تھا۔ عوام کے شکوے 100 فیصد بجا تھے، لیکن پھر مسلم لیگ ن نے اقتدار سنبھالا۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک خوفناک کھائی کے دہانے کھڑا تھا۔ میاں صاحب نے آتے ہی بجلی کے بحران کو ترجیح دی۔
آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے پاکستان میں نیوبونگ ہائیڈروپاور پراجیکٹ کا افتتاح کیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا نجی ہائیڈرو پاور منصوبہ ہے۔ اس منصوبے سے 84 میگاواٹ بجلی حاصل ہو گی۔ 40 ماہ کی مدت میں مکمل ہوگا۔ اس پر 21 کروڑ 50 لاکھ ڈالر لاگت آ ئے گی۔ اسی طرح نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ہے۔ اس منصوبے سے 969 میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی۔ اس منصوبے کی لاگت 270 ارب روپے ہے۔ تھرکول پاور پراجیکٹ ہے۔ اس منصوبے سے 660 میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی۔ کوسٹل ایٹمی پاور پلانٹ ہے۔ یہ گیارہ گیارہ سو کے 2 پاور پلانٹ ہیں۔ یہ منصوبہ چین کے تعاون سے زیرتکمیل ہے۔ اس منصوبے پر کل 960 ارب روپے لاگت آئے گی جس میں سے 728 ارب چین ادا کرے گا۔
اسی طرح گڈانی منصوبے سے 6600 میگا واٹ بجلی حاصل ہوگی۔ اسی طرح دیر میں وفاقی حکومت نے ہائیڈرل پاور پراجیکٹ شروع کیا ہے۔ اس پر 33 ارب روپے لاگت آئے گی۔ نندی پور پاور پراجیکٹ کو بحال کیا گیا ہے۔ اس سے 500 میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی۔ اسی طرح چترال میں گولن گول ہائیڈرو پراجیکٹ سعودی ڈویلپمنٹ فنڈ کی مدد سے جاری ہے۔ اس سے 106 میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی۔ وفاقی حکومت نے بجلی کے بحران سے نمٹنے کی لیے پونجی ڈیم، دیامیر ڈیم اور داسو ڈیم پر بھی کام شروع کر رکھا ہے جبکہ تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ وفاقی کابینہ نے ایران سے بجلی درآمد کرنے کی منظوری بھی دے دی ہے۔ قطر سے ایل این جی بھی برآمد کی جائے گی۔
آپ کواگر یاد ہوتو جب مسلم لیگ نے حکومت سنبھالی تھی تو اس وقت ملک بجلی کے شدید ترین بحران کا شکار تھا۔ شہروں میں 16، 16 گھنٹے اور دیہات میں 20، 20گھنٹے لوڈشیڈنگ ہورہی تھی، لیکن مسلم لیگ ن کی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس مسئلے پر خصوصی توجہ دی۔ ابتدائی طور پر بجلی چوروں کو پکڑا۔ ان کے خلاف ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے۔ 2 ماہ بعد رمضان المبارک میں ایک گھنٹے کی لوڈشیڈنگ بھی نہیں ہوئی۔ آج جب موسم گرما کا آغاز ہو رہا ہے۔ بجلی کی کھپت میں اضافہ ہوگا۔ شہروں اور دیہات میں 6 سے 8 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ وفاقی اور صوبائی وزراء یقین دہانی کرا چکے کہ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 8 گھنٹے سے زیادہ نہیں ہوگا۔ اس کامطلب یہ ہے کہ صرف 9 ماہ میں حکومت نے لوڈشیڈنگ پر 50 فیصد قابو پالیا، لیکن اس کے باوجود ہم لوگ خوش نہیں ہیں۔ ہم لوگ یہ نہیں جانتے ایک منصوبہ شروع کرنے کی لیے کن کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ منصوبے کی تکمیل پر لاگت کتنی آئے گی اور وقت کتنا صرف ہوگا۔
اب آتے ہیں معیشت کی طرف۔ مسلم لیگ ن کے برسراقتدار آتے ہی سب سے پہلا کام مناسب بجٹ پیش کرنا تھا۔ وزیراعظم نے 5 جون کو حلف اٹھایا تو 7 دن بعدحکومت نے 35 کھرب 91 ارب کا بجٹ پیش کردیا۔ اس وقت بجٹ خسارے کا تخمینہ 2024 ارب روپے تھا۔ زرمبادلہ کے ذخائر 6.3 ارب ڈالر تھے۔ 500 ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ تھا۔ آج 9 ماہ بعد پاکستان کا بجٹ خسارہ قریباً 1700 ارب ہے یعنی اس میں ساڑھے 300 ارب روپے کی کمی ہوئی۔ پاکستانی زرِمبادلہ کے ذخائر جو صرف 6.3 ارب ڈالر تھے۔ اب بڑھ کر 9 ارب 84 کروڑ ڈالرز سے تجاوز کرچکے ہیں۔ 30 ستمبر تک زرِمبادلہ کے ذخائر 16 بلین ڈالر تک پہنچنے کی اُمید ہے۔ ڈالر کی قیمت کم ہو کر 97 روپے پر آگئی جس سے گزشتہ مالی سال کے پہلے 8 ماہ کے دوران واجب الادا بیرونی قرضوں کا حجم 63 ارب 30 کروڑ ڈالر تھا جو رواں سال کم ہو کر 59 ارب 30 کروڑ ڈالر ہوگیا ہے۔ ڈالر کی قیمتیں کم ہونے کے بعد 14 انڈسٹریز نے 5 سے 8 فیصد قیمتیں کم کرنے کا اعلان کردیا۔


٭ بحیثیت قوم ہمارا حال بھی اس وزیر اور اس کے خاندان سے زیادہ مختلف نہیں۔ ہم ایک ایسی قوم ہیں جو ہر وقت مصائب و آلام میں گھرے رہنے کا شکوہ کرتے رہتے ہیں۔ ٭

اسی طرح پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی 5 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ امپورٹڈ چیزوں کی قیمتوں میں بھی گراوٹ ہوئی۔ روپے کے استحکام سے مہنگائی میں بھی کسی حد تک کمی دیکھنے کو ملی۔ سعودی عرب کے ڈیڑھ ارب ڈالرز کے تحفے سے بھی ملکی معیشت کو سنبھالا ملا۔ اگرچہ اس پر اپوزیشن نے بہت واویلا کیا، لیکن حقیقت یہی ہے یہ مسلم لیگ ن بالخصوص میاں برادران کی ذاتی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ پاکستانی معیشت کی بہتری کو دیکھتے ہوئے یکم مئی کو ورلڈ بینک نے پاکستان کے حوالے سے خصوصاً میٹنگ کا انعقاد کررکھا ہے۔ حکومت پرامید ہے اس اجلاس میں ایک بلین ڈالر کے دو قرضے ملیں گے۔ اسی طرح مئی کے آخر میں داسو پروجیکٹ کی لیے 600 ملین ڈالر کی منظوری بھی ہوجائے گی۔ سندھ کے واٹر لائننگ سسٹم کی لیے بھی 100 ملین ڈالر کا قرضہ منظورہو چکا ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے جامشوروپروجیکٹ کی لیے 900 ملین ڈالر کی منظوری دے دی ہے۔ توانائی سے متعلق اصلاحات کی لیے بھی اسی مہینے 400 ملین ڈالر کا سستا قرضہ فراہم کیا جارہا ہے جبکہ اسلامی ڈویلپمنٹ بینک نے بھی 100 ملین یورو بھیج دیے ہیں۔
کراچی اسٹاک ایکسچینج ریکارڈ ساز 28900 کی حد تجاوز کرگئی۔ بیرون سرمایہ کاری میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ مجموعی طور پر ملکی معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت ملک بھر میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھا چکی۔ لاہور میں میٹرو کے بعد راولپنڈی اسلام آباد میں میٹروبس منصوبہ زیرتکمیل ہے جس سے لاکھوں شہریوں کو سفری سہولیات میسر ہوں گی۔ راولپنڈی سے مری اور مری سے مظفرآباد کی لیے ریل لائن بچھانے کے منصوبے کا اعلان بھی کیا جا چکا۔ اس منصوبے سے بھی ترقی کے نئے دورکا آغاز ہوگا۔ دفاعی اعتبار سے یہ منصوبہ ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوگا۔ کراچی میں میٹرو بس منصوبہ اور لاہور سے کراچی موٹروے کا قیام بھی ملکی ترقی و خوشحالی میں کلیدی کردار ادا کرے گا جبکہ دہشت سے نمٹنے کی لیے سنجیدہ مذاکراتی عمل بھی جاری ہے۔ ڈرون رک چکے۔ الحمدللہ! دہشت گردی کی کارروائیوں میں بڑی حد تک قابو پالیا گیا ہے۔ یقین کامل ہے حکومت اس قضیے سے بھی جان چھڑا لے گی۔ ملک میں امن وامان قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
اگر ہم صدق دل کے ساتھ موجودہ حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ موجودہ حکومت ملک کو بحرانوں سے نکالنے کی لیے کمربستہ ہے۔ ایک طرف چین سے معاہدے ہو رہے ہیں۔ سعودی عرب، قطر، ایران، کوریا، برطانیہ، جرمنی اورجاپان سے معاہدے کئے جا رہے ہیں تو دوسری طرف حکومت سر جوڑے ملکی مسائل کے حل کی لیے فکر مند ہے، لیکن بدقسمتی سے اس سب کے باوجود قوم خوش نہیں۔ میں یہ نہیں کہتا ملکی صورتحال بہت آئیڈیل ہے، لیکن یہ حقیقت ہے ملک صحیح پٹڑی پر آ گیا ہے۔ اگر ہم لوگ مزید تین سے چار سال کڑوا گھونٹ بھر لیں۔ ہم امیدوں کے چراغ جلائے رکھیں تو میرا یقین ہے یہ ملک آیندہ تین، چار سال میں اپنے پائوں پر کھڑا ہو جائے گا۔ عوام کے 50 فیصد مسائل حل ہو جائیں گے، مگر المیہ یہ ہے ہم بحیثیت قوم بے صبرے ہیں۔ ہماری سوچ ذات سے اوپر نہیں اٹھ سکتی۔ ہم فطری طور پر بھکاری ہیں۔ ہم دن رات نعرے لگا کر اپنے نمائندوں کے سر پر اقتدار کا سہرا سجاتے ہیں۔ اگلے ہی لمحے ہم انہیں رسوا کر کے گھر بھیج دیتے ہیں۔ خوشحالی کے سوتے دوراندیشی سے پھوٹتے ہیں۔ امریکا آج اس لیے امریکا ہے کہ اس کے پیچھے قریبا ً اڑھائی سو سال کی تاریخ ہے۔ ہم 66 برس بعد ہی سپرپاور بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں جو ناممکن ہے۔ ہمیں خوشحالی کی معراج تک پہنچنے کی لیے اپنی سوچ کو وسعت دینا ہوگی۔ ہمیں امید اور یقین کا دامن سنبھالے رکھنا ہوگا۔
Flag Counter