Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 25 اپریل تا 1 مئی 2014

ہ رسالہ

2 - 11
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں 
بھارت میں عام انتخابات سر پر ہیں۔ بھارت کے ہر الیکشن کے اتار چڑھاؤ کو پاکستان میں دم سادھ کر دیکھا جاتا ہے کیونکہ بھارت اور پاکستان کے مابین تعلقات پر الیکشن کے نتائج غیرمعمولی طور پر اثر انداز ہوتے ہیں، تاہم اس بار کے الیکشن اس لحاظ سے مختلف ہیں کہ بھارتی مسلمانوں کے سب سے بڑے قاتل نریندرا مودی کاپلہ بھاری دکھائی دے رہا ہے۔ اس کے جلسوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ میڈیا پر اسے اس قدر کوریج دی جارہی ہے جو شاید اِندرا گاندھی بلکہ گاندھی کوبھی کبھی نصیب نہیں ہوئی ہوگی، حالانکہ مودی کاماضی کس سے ڈھکا چھپا ہے۔
دنیا گجرات کا قتل عام نہیں بھولی۔ اس وقت وہاں کا وزیراعلیٰ یہی مودی تھا۔ اس نے عام انتخابات سے صرف دو ماہ پہلے متعصب ہندوؤں میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے ہندو مسلم منافرت کی آگ بھڑکائی۔ ایک باقاعدہ منصوبہ بند ی کے تحت احمدآباد کے ایک ریلوے اسٹیشن پر سابرمتی ایکسپریس میں سوار ہندوؤں نے جو کسی مذہبی تقریب کے لیے جارہے تھے، ایک مسلمان خوانچہ فروش اور اس کی بیٹی کو تشدد کا نشانہ بناکر اغوا کرلیا۔ واپسی پر اسی ٹرین کی ایک بوگی کو بم دھماکے سے اُڑا کر مشہور کردیا گیا مسلمانوں نے اپنی برادری کابدلہ لینے کے لیے دھماکہ کیاہے۔
اس واقعے کو 24 گھنٹے گزرنے سے پہلے پروگرام کے مطابق ہزاروں مسلح ہندو گجرات کے دیہاتوں اور قصبوں میں پھیل گئے۔ پولیس کو سختی سے حکم دیا گیا تھا وہ کوئی

حرکت نہ کرے۔ مودی کے اشارے پر ہندو فسطائیت کا بھوت جنونی انداز میں مسلمانوں کے قتلِ عام کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا۔ فرزندانِ توحید کا لہو گجرات کے گلی کوچوں میں پانی کی طرح بہنے لگا۔ کوئی دیہات ایسا نہ تھا جو بلوائیوں کے حملوں کی زد میں نہ آیا ہو۔ عوام تو کیا مسلمانوں کے خواص بھی ان مظالم سے محفوظ نہ رہے۔ گجرات کے مسلم ممبر اسمبلی جنہوںنے اپنی کوٹھی میں کئی لٹے پٹے مسلمانوں کو پناہ دی تھی، حکومت سے بار بار مسلمانوں کے تحفظ کی اپیلیں کررہے تھے، ایسی بے دردی سے قتل کیے گئے جس نے سنا وہ زار زار رودیا۔


جس طرح چنگیز اور ہلاکو خان کی سفاکی کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں، اسی طرح مودی کے سیاہ کارنامے بھارت کابچہ بچہ جانتا ہے۔

انہیں ان کے بیوی بچوں کے سامنے گھر سے گھسیٹ کر باہر نکالا گیا۔ قاتلوں نے گھیرا ڈال کر انہیں مارنا شروع کیا۔ جب وہ ادھ موئے ہو کر گرے، اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے لیے رحم کی بھیک مانگنے لگے۔ اسی طرح سینکڑوں مساجد نذر آتش کی گئیں۔ احمد آباد میں جگہ جگہ شہدا کی لاشوں کے ڈھیر لگے تھے۔ مسلم دیہات کھنڈر بن چکے تھے۔ گجرات کی صنعت و تجارت میں مسلمانوں کا حصہ غالب تھا، مگر فسادات کے بعد ان کی سرمایہ کاری 10 فیصد بھی نہ رہی۔
ان کے پاس بچا ہی کیا تھا۔ ان کی ملیں جلادی گئیں۔ دکانوں اورگوداموں سے اربوں کا مال لوٹ کر انہیں خالی کیا گیا۔ پھرا ن کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ ہزاروں دکانوں اور سینکڑوں کارخانوں کے مالکان اپنے خاندانوں سمیت ختم ہوگئے۔ کوئی رہا ہی نہیں جو کسی بچے کچے اثاثے کا وارث ہوتا۔
جس طرح چنگیز اور ہلاکو خان کی سفاکی اور مظالم کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں، اسی طرح مودی کے یہ سیاہ کارنامے بھارت کابچہ بچہ جانتا ہے۔ عدالت میں مسلمان ہی نہیں بعض ہندو پولیس افسران اور عام آدمی بھی ضمیر کے بوجھ سے مجبور ہو کر یہ حلفیہ بیان دے چکے ہیں کہ سب کچھ مودی نے کرایا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا مودی اس بدنامی کے بعد سیاست سے بے دخل ہوجاتا، اسے کوئی منہ نہ لگاتا، مگر ہوا بالکل اس کے برعکس۔ بی جے پی میں اس کی ساکھ مزید بڑھ گئی۔ مودی بھارتی سیاست میں آگے آتے آتے آج وزارتِ عظمیٰ کا اُمیدوار ہے۔ کوئی بعید نہیں وہ یہ ہدف حاصل کرلے۔ یہ حقائق صاف بتارہے ہیں کہ ہندوؤں کا خمیر مسلمانوں سے نفرت پر استوار ہے۔ ان کی اکثریت کے نزدیک لیڈر وہی ہے جو مسلمانوں کو روندسکے، کچل سکے۔ ان کانام و نشان مٹاسکے۔ مودی اور اس جیسے یہ حقیقت اچھی طرح جانتے ہیں۔ اگر مودی کو ذرا بھی شک ہوتا مسلمانوں سے تعصب کا اظہار اس کی عوامی مقبولیت میں کمی کردے گا تو وہ کم ازکم الیکشن کے موقع پر اعتدال پسند حلقے کا مطالبہ پورا کرتے ہوئے کہ گجرات کے واقعات پر معذرت اور اظہارِ افسوس ضرور کرتا، مگر کل ہی مودی کا بیان آیا ہے: ’’مجھے گجرات کے واقعے پر کوئی شرمندگی نہیں، میں اس کے لیے کوئی معذرت نہیں کرنا چاہتا۔‘‘ اس بیان سے مسلمانوں کو کتنی تکلیف ہوئی ہوگی، مودی کوا س کی ذرا پروا نہیں۔ وہ وزیراعظم بن رہا ہے ہندوؤں کے لیے، مسلمانوں کے لیے نہیں۔
مودی کے پارٹی ورکر آج بھی سرعام کہتے ہیں: ’’مسلے غیرملکی ہیں، ان کے آباء و اجداد نے صدیوں پہلے، ہمارے دیش پر حملہ کیا تھا اور ہمیں محکوم بنا یا تھا… اب ہمیں اس پرانی دشمنی کا بدلہ چکانے کا موقع ملا ہے۔‘‘ مودی راشڑیہ سیوک سنگھ کا پرچارک ہے جس کا نعرہ ہے: ’’ مسلمانو! ہندوستان میں رہنا ہے تو ہندو بن کر رہو… ورنہ ختم کردیے جائو گے۔‘‘ مگر ہندو فاشزم کے علم بردار شاید تاریخ بھول گئے ہیں۔ یہ مسلمان وہ ہیں جو عرب سے عدل و انصاف کی مشعلیں لے کر اس اندھیر نگری میں اس وقت پہنچے تھے جب داہر اپنی سگی بہن سے نکاح کرکے اخلاق و شرافت کی دھجیاں اُڑا رہا تھا۔ مسلمان دیبل کے ساحل سے لے کر خلیج بنگال تک اس ظلمت کدے کو روشن کرتے چلے گئے۔ بقول مولانا ابو الکلام آزادؒ: ’’ابھی تاریخ کی صبح طلوع نہیں ہوئی تھی کہ ہمارے قافلے گنگا اور جمناکے کنارے وضو کرتے نظر آتے تھے۔‘‘
آج بھی انصاف پسند مؤرخ جب ساڑھے 13 سو سال قبل کی تاریخ پر نگاہ ڈال کر اس سرزمین، اس کے جغرافیے، اس کی مکانی وسعت، اس کے اندرونی اذیت ناک ماحول، یہاں انسانی اقدار کی پامالی اور پھر عرب کے بادیہ نشینوں کی اس ایمانی قوت کو دیکھتا ہے جس کے بل بوتے پر وہ بحر ہند کا وسیع سینہ چیر کر اس ظلمت کدے میں پہنچے تو تعجب اور تحیر کی ایک لہر اسے اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ جب وہ اہلِ ہند کے ساتھ محمد بن قاسمؒ، محمود غزنویؒ، قطب الدین ایبکؒ اور شہاب الدین غوریؒ جیسے فاتحین کا حسن سلوک دیکھتا ہے تو وہ مسلمانوں کی اخلاقی بلندی کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
یہ بات طے ہے کہ مودی جیسے سیاست دان اور اس کے چمچے مسلمانوں کو اپنے درمیان کبھی قبول نہیں کرسکتے، مگر بھارت کی تاریخ گواہ ہے وہاں کے مسلمانوں نے عملی کوتاہیوں کے باوجود اپنے مذہب اور عقیدے سے اجتماعی طور پر انحراف نہیں کیا۔ تمام مصائب اور تکالیف جھیل کر بھی وہ بحیثیت مسلمان قوم کے قائم و دائم ہیں۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت ان کی تعداد جو 6 کروڑ کے لگ بھگ تھی اب بڑھ کر 30 کروڑ سے زائد ہوچکی ہے۔ یہ تعداد دنیا کے کسی بھی ملک کی مسلم آبادی سے زیادہ ہے۔ کل تک جو مسلمان ہندوئوں کے بارے میں غلط فہمی کا شکار تھے، آج ان پر بھی حقیقت آشکار ا ہوگئی ہے۔ متعصب ہندوئوں کا ظلم و ستم بھارتی مسلمانوں کی بیداری اور ان کے اتفاق و اتحاد کا سبب بن چکا ہے۔ مودی نے آنا ہے تو آجائے اور اپنا شوق پورا کرلے۔ بھارتی مسلمان اسے ببانگِ دہل دعوت دے رہے ہیں ؎
ادھر آستم گر ہنرآزمائیں توتیر آزما ہم جگر آزمائیں
Flag Counter