Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 25 اپریل تا 1 مئی 2014

ہ رسالہ

6 - 11
قرآن مجید کی کنجی
وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف خان نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میںحفظ قرآن کریم کے انعامات کی تقسیم کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ سرکاری اسکولوں میں میٹرک تک عربی زبان کو لازمی قرار دیا جا رہا ہے جس کے لیے اصولی فیصلہ ہوچکا ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا ہے قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے عربی زبان کی تعلیم کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں اس سلسلہ میں مسلسل بے پرواہی سے کام لیا جاتا رہا ہے، مگر اب حکومت نے اس طرف توجہ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ میٹرک تک عربی تعلیم کو لازم کرنے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔‘‘ یہاں دو الگ الگ چیزیں ہیں: قرآنی عربی اور مکمل عربی۔ قرآنی عربی آسان بھی ہے اور ہرمسلمان کی روز مرہ کی ضرورت بھی۔ آسان اس لیے ہے کہ یہ اس کلام کا حصہ ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے خِلقی اورتکوینی طورپر آسان کر کے اتارا ہے۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے ویسا ہی آسان کر کے پڑھانے کا طریقہ تلاش کر لیا جائے جیسا کہ یہ فطری طور پر آسان ہے۔ قرآنی عربی روز مرہ ضرورت اس لیے ہے کہ اذان، نماز، دعا وغیرہ روز مرہ کے معمولات، معنی سمجھ کر پڑھنے کی روز ہی ضرورت پڑتی ہے۔

مکمل عربی طویل ہے اور اس کی ضرورت خواص کو ہے عوام کو نہیں۔ عوام کو اگر اتنی عربی آجائے جس سے وہ قرآن کریم کے 78 ہزار الفاظ جو اصل میں غیر مکرر شکل میں 17 ہزار ہیں، سمجھنے

لگ جائیں تو اس سے وہ نہ صرف قرآن شریف سمجھنے لگ جائیں گے، بلکہ حدیث شریف اور کتابی عربی سے بھی بہت حد تک ان کی ذہنی شناسائی ہو جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان 17 ہزار غیرمکرر الفاظ کا اصل مادہ ساڑھے 4 ہزار الفاظ ہیں۔ اگر کوئی ان کو سیکھ لے اور یہ سمجھ لے کہ ان سے 17 ہزار الفاظ کیسے بنتے ہیں؟ تو اس کو بقیہ 78 ہزار الفاظ بھی سمجھ آنے شروع ہو جائیں گے۔ گویا آپ کو 30 پارے قرآن پاک یاد کرنے کی ضرورت نہیں، 5 پارے کے بقدر خلاصہ یاد کرلیں تو بقیہ 25 پارے کے فہم کا دروازہ کھل جائے گا۔ مربوط کوشش کی جائے تو آسانی کا یہ سلسلہ مزید آسانیاں پیدا کر سکتا ہے۔ وہ اس طرح کے یہ ساڑھے 4 ہزار الفاظ بھی دراصل الفاظ کے 4 خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ پہلے خاندان میں 6، دوسرے میں12، تیسرے میں16، اور چوتھے میں 120 الفاظ ہیں۔اگر 4 خاندانوں کے 154 الفاظ یاد کر لیے جائیں اور سمجھ لیا جائے کہ مزید الفاظ کیسے بنتے ہیں؟ تو کوزے میں دریا کا مصداق ہوکر پورے قرآن شریف کی کنجی ہاتھ آجاتی ہے۔ کچھ سال پہلے احقر سے بہت سے احباب نے کہا تھا علماء حضرات مدارس کے طلبہ نحو، صرف، ترجمہ، تفسیر کے حوالے سے ماشاء اللہ! بہترین انداز میں کام آرہے ہیں۔ ہر سال نئی محنت نئے انداز میں سامنے آتی ہے اور مفید ومقبول ثابت ہوتی ہے۔ اگر کچھ توجہ اس طرف بھی کی جائے کہ بچوں، اسکول، کالج کے طلبہ اور عوام الناس کے لیے مدارس کی روایتی اور ٹھیٹھ راسخ قسم کی صرف نحو کو آسان انداز میں مدون کیا جائے۔ یہ کام کوئی عالم مدرس کرے جو دونوں طبقوں کو پڑھانے کا تجربہ رکھتا ہو توخیر کا ایک بڑاکام ہوسکتا ہے۔
ذرائع ابلاغ کی یلغار کے اس دور میں نہ صرف یہ کہ بچے بچے کو عربی سے واقفیت ہوجائے گی، بلکہ اس کے دل میں کتاب وسنت اور فقہ وادب کے اصل ماخذ سے حاصل شدہ نظریات وافکار بچپن سے گھر کر جائیں گے۔ عربی کے اصل ماخذ سے براہ راست شناسائی کے ساتھ فکری ونظریاتی پختگی جیسی صفات پیدا ہوسکتی ہیں۔ یہ ملک وقوم کی بڑی خدمت ہوگی کہ مدرسہ ومکتب اور اسکول وکالج میں بیک وقت علمائے کرام کا ترتیت دیا ہوا قرآنی نصاب پڑھایا جائے۔ بچے کو قرآنی الفاظ کی گردانیں ازبر ہوں ،ترجمہ یاد ہواور مفہوم سمجھتا ہو، قیام، رکوع، سجود وقعود کی مناجات کا لطف لے سکتا ہو۔


عرصہ قبل وفاقی محتسب اعلیٰ نے باقاعدہ حکم دیا تھا سرکاری اسکولوں میں آٹھویں جماعت تک قرآن کریم ناظرہ کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے، مگر کئی سال گذر جانے کے باوجود اس حکم پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

بہت عرصہ تک احباب مجھ سے درخواست کر تے تھے۔ احقر دوسرے علماء حضرات خصوصاً جن کو قرآن کریم کی خدمت سے شغف تھا، ان سے درخواست کرتا تھا کہ خدارا! اس سلسلے میں کچھ کریں۔ میرے دو شہید بھائی حضرت مفتی عتیق الرحمن صاحب شہید اور حضرت مولانا محمد اسلم شیخوپوری صاحب شہید کے ساتھ یہ گفتگو رہتی۔ یہ عاجز اِن سے اصرار کرتا اور وہ اُلٹا اس کو تاکیدی حکم کرتے کہ تم خود بسم اللہ کرو۔ ہم تمہاراساتھ دیں گے۔ یہ اصرار و انکار جانبین سے چلتا رہا حتیٰ کہ مجبور ہوکر تجرباتی طور پر اس نصاب کا آغاز ہوا، جس کی تعارفی وتربیتی نشست ملک کے مختلف شہروں اور مؤقر جامعات و مدارس میں ہو چکی ہے۔ سینکڑوں علماء نے اس کے’’معلّم‘‘ اور بیسیوں نے ’’مدرّب‘‘ بننے کا مرحلہ بھی عبور کر لیا ہے۔ جہاں جہاں موقع ملا، مسجد ومدرسہ، مکتب واسکول میں اسے پڑھا رہے ہیں۔ ہر تربیتی نشست کے آخر میں احقر کی عادت تھی حضرات علمائے کرام کی بصیرت و دانش سے استفادہ کرنے کے لیے ان سے تحریری تاثرات حاصل کرتا تھا۔ اس میں ان کو کھل کر دعوت دی جاتی تھی کہ وہ تنقید، تبصرہ، یا تجویز ، مشورہ دیں۔ چاہیں تو اپنا اسم گرامی بھی تحریر نہ کریں تاکہ کسی قسم کے تکلف کے بغیر اصل اور کھری رائے سامنے آسکے۔ ان حضرات کے مشوروں اور تبصروں کو تنہائی میں سکون سے پڑھنے اور غور کرنے سے بہت سی باتیں سامنے آئیں۔ اس طرح یہ نصاب تدریسی تجربہ اور مشاورتی تجاویز کے سائے میں پروان چڑھتا رہا۔ خصوصاً جن مدرسین حضرات نے اپنی جگہ پڑھایا، شروع کیا، ان کے عملی تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس میں بہت سی ترامیم واضافات اور تغیر وتبدل کیا گیا۔ اب یہ اس قدر واضح ہوچکا ہے کہ ثانیہ تک نحو صرف پڑھے ساتھی کو 6گھنٹے میں معلّم اور 2گھنٹے میںمدّرب کی تربیت دی جاسکتی ہے۔ چند گھنٹوں کی تربیت کے بعد وہ اگلے روز ہی کہیں بھی مسجد، مدرسہ، اسکول، آڈیٹوریم یا چاہے تو کسی درخت کے نیچے بچوں یا بڑوں کو زبانی پڑھا سکتا ہے۔احباب کی تدریب اور معلمین کی تربیت کے بعد اب یہ کاوش اس قابل ہوچکی ہے کہ یہ عاجز اسے ملک وبیرون ملک جہاں بھی لے کر گیا، علمائے کرام نے بلاتکلف نجی محفلوں میں بھی اور سرمحفل بھی اسے سراہا اور چاروں طبقوں (بچے، اسکول کالج کے طلبہ ، جدید تعلیم یافتہ طبقہ اور خواتین) کے لیے مفید قرار دیا۔
مکمل عربی سیکھنے سکھانے کا ہدف اتنا وقت اور محنت چاہتا ہے کہ باہمت ساتھیوں کے علاوہ اکثر حضرات کا سانس تھوڑا آگے چل کر اُکھڑنے لگتا ہے۔ ’’قرآنی عربی‘‘ کا ہدف مختصر اور منضبط بھی ہے اور آسان و جلد قابل حصول بھی۔ یہ مکمل عربی کی طرف پہلا قدم ہے۔ ملک بھر میں چار پانچ سال کے ایسے بہت سے بچے موجود ہیں جنہوں نے اس نصاب کا صرف پہلا حصہ پڑھا ہے، لیکن حاضرین میں سے جو چاہے، جہاں سے آیت، حدیث یا عربی کا مصرعہ مقولہ پڑھے، یہ اس کے ہر لفظ کو لفظ بہ لفظ حل کر کے عربی گردانیں اور ان کا ترجمہ سنا دیتے ہیں۔ ایسا کرسکنے والے 5 سال سے بڑی عمر کے بچے، جوان اور بوڑھے تو بے شمار ہیں۔ کچھ عرصہ قبل وفاقی محتسب اعلیٰ نے باقاعدہ حکم دیا تھا کہ سرکاری اسکولوں میں آٹھویں جماعت تک قرآن کریم ناظرہ کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے، مگر کئی سال گذر جانے کے باوجود اس حکم پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ وجہ یہ بتائی گئی ہر اسکول کے لیے 2 قاری صاحبان دستیاب نہیں ہیں۔ اگر میسر آ جائیں تو بجٹ میںتنخواہوں کے لیے رقم نہیں، لہٰذا یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ ’’قرآنی عربی‘‘ نصاب پڑھانے کی نشست جب علمائے کرام کے لیے منعقد کی جاتی ہے تو انہیں ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اپنی مسجد و مدرسہ کے قریب واقع سرکاری یا نجی اسکول میں یومیہ 20 منٹ کی بنیاد پر ’’قرآنی عربی‘‘ فی سبیل اللہ بغیر کسی حق الخدمت کے پڑھائیں۔ علم اورصحت کے صدقہ کی اس سے بہتر صورت کیا ہوگی؟
Flag Counter