Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن11 تا 17 جولائی 2014

ہ رسالہ

8 - 8
حقوق نسواں اور حجاب
یورپ کی عدالت برائے انسانی حقوق نے چہرے کے پردے پر فرانس کی جانب سے لگائی جانے والی پابندی کی توثیق کردی ہے۔ عدالت میں ایک مسلمان فرانسیسی خاتون نے مقدمہ دائر کیا تھا جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا تھا کہ عوامی مقامات پر نقاب پہننے پر پابندی کی وجہ سے ان کی مذہبی اور اظہار کی آزادی متاثر ہوئی ہے۔ فرانس نے 2010ء میں عوامی مقامات پر خواتین کے چہرے چھپانے اور نقاب پہننے پر پابندی عائد کردی تھی۔ یہ پابندی سابق فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی کی حکومت نے لگائی تھی۔ سابق صدر سرکوزی آج کل بدعنوانی کے مقامات کا سامنا کررہے ہیں۔
یورپ کی مذکورہ عدالت نے درخواست گزار خاتون کی درخواست اس لیے مسترد کردی ہے کہ لوگ عوامی مقامات پر شاید ایسے رویے یا عادات کا مظاہرہ کرنا پسند نہیں کریں گے جن سے یہ لگے کہ دو افراد ایک دوسرے سے کھل کر بات نہیں کرسکتے۔ بی بی سی جو اس قسم کے کیسوں میں مغرب کی وکیل ہے، نے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ مغرب کے معاشرے میں جہاں اس معاملے پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ افراد کے درمیان میل جول معاشرتی زندگی کا لازمی جزو ہے،ا یسے معاشرے میں ایک دوسرے سے چہرہ چھپانے پر سوال اُٹھ سکتے ہیں۔ درج بالا تفصیل بی بی سی نے دی ہے اور اس پر کوئی طنزیہ احتجاج نہیں کیا، بلکہ اس کی مکمل حمایت کی ہے، جبکہ اگر عورت کے خلاف اس قسم کا فیصلہ پاکستان میں ہوتا، جس کا تعلق کسی نہ کسی سطح پر مذہب سے ہوتا تو بی بی سی کے طنزیہ جملے دیکھنے کے ہوتے۔ بی بی سی کے مایۂ ناز مبصرین اور بلاگرز خوب دادِ بیان دیدیتے اور ایک طوفان اُٹھادیتے۔

یہ درخواست ایک خاتون کی طرف سے دی گئی تھی جس کو عوامی مقامات پر مردوں کے سامنے اپنا چہرہ کھولے رکھنے سے تشویش ہوتی ہے۔ اس کی چاہت یہ ہے کہ اگر کوئی خاتون اپنا چہرہ لوگوں کو نہ دکھانا چاہے تو اس کو اس کا حق ہونا چاہیے۔
اگر واقعی طور پر شخصی اظہار رائے اور ذاتی معاملات کے حوالے سے یورپی تصورات کو دیکھا جائے تو خواتین کو بجاطور پر یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ مردوں سے اپنا چہرہ چھپانا چاہیں تو چھپائیں۔ جیسے عوامی مقامات پر مغربی خواتین کو کسی بھی قسم کا لباس پہننے کی اجازت ہے، حتیٰ کہ بہت سے لباس ایسے بھی ہیں جن کو لغت کی رو سے لباس کہنا ہی مشکل ہوتا ہے یعنی صفر مقدار کا لباس وغیرہ۔ یورپ کے ماحول میں کوئی بھی بے ہودگی، آوارگی اور کوئی بھی بداخلاقی پر مشتمل حرکت عوامی مقامات پر ہوسکتی ہے، البتہ عورت کے لیے پردے میں رہنا گوارا نہیں کیا جاتا۔ دراصل وہاں کے معیارات کے مطابق جو آزادی ہے وہ آوارگی اور بے پردگی کی آزادی ہے۔ اس آزادی کے دائرے میں شرافت اور اخلاق پر کاربند رہنے کی آزادی نہیں آتی۔
یورپ کی لاکھوں عورتیں بے لباس (تقریباً) گھومتی ہیں۔ اگر وہاں ایک آدھ مسلم خواتین نے نقاب پہن بھی لیا تو اس ننگے معاشرے کو اس سے کیا خطرہ ہوسکتا ہے؟ یہ ایک سوال ہے، لیکن یورپ کے اوباشوں کو خطرہ ہے کہ نقاب عام نہ ہوجائے اور خواتین میں مقبولیت حاصل نہ کرلے۔
اگر ایسا ہوگا تو ہر ہر چوراہے پر، دکان، پارک، آفس، سڑک، ہر جگہ مفت کی عورت ملنے میں دُشواری ہوگی۔ یورپ نے عورت کو ایک سوشل اثاثہ قرار دیدیا ہے جس کی خدمات اور اس کے جسم پر پورے معاشرے کا حق تسلیم کیا جاتا ہے، اس لیے یورپ اپنے اس اجتماعی اثاثے سے دستبردار کسی صورت میں نہیں ہوسکتا۔
فرانس سمیت بہت سے دیگر یورپی ممالک میں عورتوں نقاب پر پابندی ہے۔ مسلمان خواتین کو طرح طرح کی مشکلات کا سامنا ہے، بلکہ اس حوالے سے ایک مخصوص طبقے کی منافرت کا بھی سامنا ہے جس کے نتائج قتل تک کے اقدامات کی شکل میں ظاہر ہورہے ہیں۔ دو سال قبل جرمنی میں عدالت کے اندر ایک مسلمان خاتون مروی الشربینی کو ایک جنونی شخص نے خنجروں سے وار کرکے شہید کردیا۔ وہ خاتون بھی نقاب کا مقدمہ لڑرہی تھی۔ حالیہ دنوں ایک سعودی خاتون کا قتل بھی ہوا ہے جس کے بارے میں بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ اس کو بھی ایسے ہی کسی نقاب مخالف شخص نے شہید کیا ہوگا۔
پردے کا حق حاصل کرنے کے لیے یورپ کی مسلمان خواتین جن مشکلات سے گزر رہی ہیں، یہ ان لبرل لوگوں کی تکذیب کے لیے کافی ہیں جو یہ شور مچاتے پھرتے ہیں کہ مسلمان معاشروں میں عورت کو زبردستی پردے میں قید کردیا جاتا ہے۔ جبری طور پر برقع میں رکھا جاتا ہے۔ یورپ کے ماحول میں کسی بچے پر بھی کوئی جبر نہیں کرسکتا، وہاں عورت اپنی مرضی سے جو لباس پہننا چاہے پہن سکتی ہے، لیکن عورت کے مطالبے کے باوجود اس کو وہاں یہ حق نہیں دیا جارہا، بلکہ جبراً اس سے پردہ چھینا جارہا ہے۔ اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو عورت پر جبر یورپی معاشرے میں ہے، بلکہ اگر واقعات کو صحیح زاویے سے دیکھا جائے تو یورپ کی ہر عورت کسی نہ کسی طرح جبر کے تحت سوشل زندگی میں گھسیٹ کر لائی جاتی ہے۔ معاشرے میں بہت سے اقدامات کو ضروری قرار دیا گیا ہے جن میں عورت کا بے پردہ ہونا بھی ہے، بلکہ یورپی عورت وہاں پر مردوں سے ناجائز تعلقات رکھنے پر بھی مجبور ہی ہے، کیونکہ وہاں کا ماحول یہ ہے کہ جو عورت مردوں میں گھل مل کر نہیں رہتی تو وہ بیمار سمجھی جاتی ہے۔ لوگ اس کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ اس کی تحقیر کی جاتی ہے، اس لیے یورپ کے معاشرے میں آوارگی پر عورت مجبور ہے۔ یہ آزادی نہیں ایک معاشرتی جبر کا عمل ہے جو عورت کو ہر جگہ قابلِ استعمال بنادیتا ہے۔
مسلم خواتین اپنے معاشروں میں اپنے لباس، شرم و حیاء والی اقدار اور اسلامی ماحول کی قدر کردیں، پردے کا اہتمام کریں اور یہ سوچیں کہ جن معاشروں میں ہماری مسلمان بہنوں کو نقاب کی اجازت نہیں ہے، وہ کس طرح کوفت اور اذیت میں ہوں گی۔ عورت کے حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں عمومی تأثر یہ ہے کہ یہ مسلم ممالک میں زیادہ ہوتی ہے، بلکہ مسلمان معاشرے کو عورت پر ظلم کرنے والا معاشرے تصور کیا جاتا ہے اور جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہوجاتا ہے جو مغرب کے معیارات کے مطابق عورت کی حق تلفی پر مشتمل ہوتا ہے تو وہاں کی حکومتیں احتجاج کرتی ہیں اور ہماری حکومتوں سے اس کے ازالے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ افسوس کہ مسلمانوں کی حکومتیں سیاسی حیثیت میں اتنی حقیر اور بے وقعت ہیں کہ پردہ جیسی شرافت کی علامت پر پابندی کے خلاف بھی کوئی احتجاج نہیں کرسکتیں۔ اب تک کسی بھی مسلم ملک نے باقاعدہ حکومتی سطح پر ایسا کوئی احتجاج نہیں کیا ہے، جبکہ یورپ و امریکا اپنے معاشرتی معیارات کے حوالے سے ہماری حکومتوں کو سرزنش کرنے کی عادت رکھتے ہیں۔ ہماری حکومتیں دیگر معاملات کی طرح اس مسئلے میں بھی بیچارگی کا ’’حسین نمونہ‘‘ پیش کرتی ہیں۔
Flag Counter