Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن11 تا 17 جولائی 2014

ہ رسالہ

2 - 8
اس سے پہلے کہ…
شمالی وزیرستان میں فوج کا آپریشن شروع ہونے کے بعد پانچ تا چھ لاکھ افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ کچھ راستے میں ہیں، کچھ پناہ گزین کیمپوں میں۔ یہ دربدری، یہ بدامنی، یہ ہلاکتیں، یہ بھوک پیاس اور مصائب نہ معلوم ہمارے بھائی بہنوں کی قسمت میں کب تک ہیں؟ برطانیہ کے دورِ حکومت میں سرحدی علاقوں میں بار بار کارروائیاں کی گئیں۔ دنیا کی ان خوبصورت اور پُرامن ترین وادیوں کو آتش و خون کا پیغام دیا گیا۔ انگریز سرکار کو سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا بھی اسی خطے میں کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ وائسرائے ہند نے اس علاقے کا نام ہی ’’یاغستان‘‘ (باغیوں کا علاقہ) رکھ دیا۔ تحریکِ آزادی کے کئی بڑے بڑے لیڈر یہاں پیدا ہوئے۔ فقیر ایپی اور حاجی صاحب ترنگزئی کا نام کون بھول سکتا ہے؟ خان عبدالغفار خان کے سرخ پوشوں نے یہیں سے برطانوی سامراج کو چیلنج کیا تھا۔ مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے دیوبند سے آکر جب یہاں مسلم لیگ کے لیے ووٹ مانگا تو پختون سرداروں نے پُرجوش انداز میں حمایت کا اعلان کیا۔ آخر گورے نے رختِ سفر باندھا۔ تقسیم ہند ہوئی اور سرحدیں کچھ زمانے کے لیے پُرسکون ہوگئیں، مگر سرحد کے اُس طرف آباد مسلمانوں کے لیے امن کا وقت مختصر ثابت ہوا۔ روسی ریشہ دوانیوں نے افغانستان میں ہل چل مچائی۔ علماء کو اپنے دین و مذہب کی حفاظت کے لیے میدان میں نکلنا پڑا۔ افغان قوم نے 14 سال جنگ لڑ کر ماسکو سرکار اور اس کے کٹھ پتلی حکمرانوں کا وہ حشر کیا کہ سپر پاور کہلانے والا روس صفر پاور کہلانے لگا۔ ایک ایسی جنگ جس میں کامیابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے، کس طرح جیتی گئی… ان قربانیوں کی داستانیں آج بھی اوراقِ جہاد میں محفوظ ہیں۔

ان مسلمانوں کو اس جرأتِ رندانہ کی سزا ملنی ہی تھی سو ملی۔ اب انہیں کسی بیرونی حملے کی بجائے بالواسطہ لڑائیوں کے ذریعے کمزور اور منتشر کرنے کا عمل شروع ہوا۔ فتح کابل کے بعد جس طرح مجاہد لیڈروں کو لڑایا گیا وہ خطے کی تاریخ کا ایک عبرتناک باب ہے۔ طالبان نے ان لیڈروں کی غلطیوں کی تلافی کرتے ہوئے امارتِ اسلامیہ قائم کی تو انہیں نشانۂ عبرت بنانے کے لیے پوری دنیا امنڈ آئی۔ اس وقت جو جنگ شمالی وزیرستان میں لڑی جارہی ہے، وہ اسی گزشتہ کہانی کا تسلسل ہے۔
مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑاکر بیرونی طاقتیں چین کی بانسری بجارہی ہیں۔ (باقی صفحہ5پر) جنگ جن کے خلاف ہے ان میں سے شاید 10 فیصد بھی بمشکل زد میں آئیں۔ سرحدوں کو عبور کرنا اور واپس آکر حملے کرنا جنگجوؤں کے لیے معمولی بات ہے، مگر جنگ کے اصل متاثرین یہ لاکھوں افراد ہیں جو کسی فریق کے ساتھ نہیں۔ انہیںکسی نے کچھ نہیں دیا۔ یہ اتنے خوددار ہیں کہ کسی سے مانگیں کیا، لیتے بھی نہیں، مگر ایک چیز انہیں بہرحال چاہیے جو دنیا کا ہر انسان چاہتا ہے۔ وہ ہے امن، مگر جب گھروں پر بمباری ہورہی ہو۔ جب مشین گنوں کی اندھی گولیاں ہر اجل رسیدہ کے تعاقب میں ہوں۔ جب 70 اور 80 سال کی بوڑھی ماؤں کو بسترسے کندھے پر اٹھا کر گھروں سے نکلنے والے جوانوں کے پیروں میں چھالے پڑچکے ہوں۔ جب گرمی سے بے حال اور پیاس سے نڈھال روحیں جسم کا ساتھ چھوڑنا چاہتی ہوں۔ جب ماہ و انجم کی نظروں سے مستور رہنے والی دوشیزاؤں کو چادر تلاش کرنی پڑتی ہو اور بھائیوں کو ان کا سر ڈھانپنے کے لیے اپنا کرتا چاک کرنا پڑتا ہو، توایسے میں امن کہاں؟ خیر آمدم برسر مطلب! یہ رمضان کا مہینہ ہے جس میں ہر شخص اپنے گھر میں اہلِ خانہ کے ساتھ سحر و افطار کرنا چاہتا ہے۔ اپنی مسجد میں تراویح کا لطف اٹھانا چاہتا ہے، پھر روزے بھی جولائی کی خوب گرمی کے۔ ایسے میں یہ متاثرین کس قدر اذیت ناک حالات سے گزر رہے ہیں، اس کا اندازہ لگانا چاہیے۔ شمالی وزیرستان سے ان کے انخلا کا عمل اب تک جاری ہے۔ ان کی بڑی تعداد کے پاس ٹرانسپورٹ نہیں ہے۔ لوگ پیدل چل چل کر، بھوک پیاس سے بے ہوش ہوئے جارہے ہیں۔ شیر خوار بچے ماؤں کی گودوں میں دم توڑ رہے ہیں۔ آسمان سے سورج آگ برسا رہا ہے۔ زمین لوہے کی طرح تپ رہی ہے۔ میران شاہ سے بنو ں کی طرف آنے والی شاہراہ پر ایسے دردناک مناظر قدم قدم پر دکھائی دے رہے ہیں۔ کوئی پیاس سے بے سدھ ہوکر گر پڑا ہے۔ کوئی بیمار ہے اور اسے اٹھاکر لانے والا خود لڑ کھڑا رہا ہے۔ امدادی کیمپوں تک پہنچنا ہی ان کے لیے سب سے کٹھن مسئلہ بن چکا ہے۔
حکومت کی طرف سے متاثرین کی رجسٹریشن جاری ہے۔ امدادی کیمپ کھول دیے گئے ہیں، مگر سہولیات سخت ناکافی ہیں۔ اتنی بڑی نقل مکانی کے لیے جتنی تنظیم اور منصوبہ بندی کی ضرورت تھی، اس کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔ حکومت کے کاموں سے تو عام شہری تک مطمئن نہیں۔ جہاں اکثر سرکاری اہلکار معمول کی ذمہ داریاں پوری نہ کرتے ہوں، وہاں ہنگامی حالات میں بدنظمی کا کیا حال ہوگا؟ یہ سب کچھ انہی ہمارے بے گھر بھائی بہنوں کو سہنا پڑرہا ہے۔ اندازہ لگائیے! آج ہمارے اور آپ کے گھروں میں صرف 24 گھنٹے کے لیے بجلی بند ہوجائے، پانی کی لائن کٹ جائے اور راشن کمیاب ہوجائے تو ہمارا کیا حال ہوگا۔ ہمارے وزیرستانی بھائی بہن 3 ہفتوں سے اس سے کہیں زیادہ سخت حالات کا شکار ہیں۔ معلوم نہیں ابھی انہیں گھروں کو واپس جانے کے لیے کتنی مدت درکار ہوگی؟
ایسے میں میری، آپ کی اور ہر مسلمان کی جو ان دُکھ کے مارے لوگوں کے حالات سے واقف ہے، یہ اوّلین ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی مددکے لیے آگے بڑھے۔ جس میں ہمت اور توانائی ہے وہ خود امدادی کیمپوں میں جاکرا ن کی خدمت کرے۔ جنہیں اللہ نے علاج معالجے کی قابلیت دی ہے، وہ فلاحی تنظیموں کی وساطت سے وہاں وقت دیں۔ جو خود نہیں جاسکتے وہ اپنی زکوٰۃ و صدقات اور خیرات دے کر اس فریضے کی انجام دہی میں حصہ لیں۔ یہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی وقت کے لیے ہے: ’’سب مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں کہ اگر اس کی آنکھ دُکھتی ہے تو سارا جسم بے چین ہوجاتا ہے اور اگر اس کا سر دُکھتا ہے تو پورا بدن بے چین ہوجاتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ: صفحہ 422) سوچیے! ہم اپنے ان بھائیوں کے درد کی کوئی ٹیس اپنے دل میں محسوس کررہے ہیں یا نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے: ’’جو شخص کسی مسلمان بھائی کی ضرورت پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ضرورتیں پوری کرتا ہے اور جو کسی مسلمان کے کسی غم کو دور کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن کے غموں میں سے ایک بڑے غم سے نجات دے گا اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔‘‘(بخاری، مسلم )
آئیے! قیامت کی ہولناکیوں سے بچنے کے اس سنہرے موقع سے فائدہ اٹھالیں۔ متاثرین کو ہر چیز کی ضرورت ہے۔ غذاکی، پانی کی، خیموں کی، مشروبات کی، دواؤں کی، بجلی کی۔ ان کے بچوں اور بچیوں کو معلّمین اور معلّمات کی بھی ضرورت ہے۔ ڈاکٹرز اور ڈسپنسری کی ضرورت ہے۔ ان کی دست گیری کے لیے آگے بڑھیں۔ اس سے پہلے کہ ہم پر اللہ کی حجت تمام ہوجائے۔
Flag Counter