Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن11 تا 17 جولائی 2014

ہ رسالہ

7 - 8
سیدہ عائشہؓ کی انوکھی خصوصیات
’’اے عائشہ: جبرئیلِ امین تمہیں سلام کہتے ہیں۔‘‘جس شخصیت کو جبرئیل! امین نے سلام کہا، انہوں نے تقریباً 70 سال کی عمر میں 17 رمضان 85 ہجری میں حضرت امیر معاویہؓ کے دور میں اس دنیا سے پردہ فرمایا۔ اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو کچھ خصوصیات حاصل ہیں... آج ہم ان خصوصیات کا مختصر سا حال بیان کریں گے، کیونکہ یہ خصوصیات حیرت انگیز بھی ہیں اور دلچسپ بھی۔ یہ خصوصیات باقی تمام ازواجِ مطہرات کو حاصل نہیں۔
tسیدہ عائشہ صدیقہؓ دنیا اور آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں۔ اس سلسلے میں آپ خود فرماتی ہیں: ’’ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہؓ کا ذکر فرمایا تو میں نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول! آپ سیدہ فاطمہؓ کا تو ذکر فرما رہے ہیں، میرے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تم دنیا اور آخرت میں میری بیوی ہو۔‘‘ (مستدرک حاکم: 4/10) اس پر سید ہ عائشہؓ نے عرض کیا: ’’کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد ہے: ’’عائشہ جنت میں میری بیوی ہے۔‘‘ (ابنِ شیبہ:128/12) حضرت عمار بن یاسرؓ فرماتے ہیں: ’’سیدہ عائشہؓ آپ صلی اللہ وسلم کی دنیا اور آخر میں بیوی ہیں۔‘‘ ( ترمذی شریف: حدیث نمبر 3883) ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ آئے ہیں: ’’اے عائشہ! موت اب مجھ پر آسان ہو گئی، کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ تم جنت میں میری بیو ی ہو گی۔‘‘ (المعجم الکبیر: 39/23) طبقات، مسند اور البدایہ میں بھی یہ روایت موجود ہے۔

tسیدہ عائشہؓ کے مرض الموت میں سیدنا عبدا للہ بن عباسؓ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ اس وقت سیدہ عائشہؓ کے بھتیجے حضرت عبدا للہ بن عبدالرحمن بن ابی بکرؓ آپ کے سرہانے بیٹھے تھے... انہوں نے عرض کیا: ’’ابن عباس ملنے کی اجازت چاہتے ہیں۔‘‘ آپؓ نے فرمایا: ’’میں اس وقت کسی سے نہیں ملنا چاہتی۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عبدالرحمنؓ نے عرض کیا: ’’ابن عباس تو آپ کے نہایت نیک او ر صالح بیٹوں میں ہیں، وہ سلام کرنے کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔‘‘ آپؓ نے فرمایا: ’’اچھا! اگر تم چاہتے ہو تو انہیں بلا لو۔‘‘ حضرت ابنِ عباسؓ اندر آئے تو انہوںنے عرض کیا: ’’امّاں! آپ کو خوشخبری ہو، جب آپ کی روح آپ کے جسم سے نکلے گی تو آپ سیدھی حضور نبی کریم کے پاس جائیں گی، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چہیتی بیویوں میں سے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوائے اچھی چیز کے اور کسی سے محبت نہیں فرماتے تھے۔‘‘ (مسند احمد: 276/1، المعجم الکبیر: 390/10) t حضرت عائشہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ صرف بیویوں میں سب سے زیادہ محبوب تھیں، بلکہ تمام لوگوں میں بھی آپ کو زیادہ محبوب تھیں۔ حضرت عمر و بن عاصؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عر ض کیا: ’’تمام لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’عائشہ !‘‘ پوچھا گیا: ’’مردوںمیں کون ؟‘‘ آ پؐ نے فرمایا: ’’ا ن کے والد۔‘‘ پوچھا گیا: ’’پھر کون ؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’عمر ابن خطاب۔‘‘ پوچھا گیا: ’’پھر کون ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور لوگ بھی گنوائے۔ (مسند احمد: 203/4، بخاری حدیث: نمبر 3662، مسلم: حدیث نمبر 2384، ترمذی: 3880) جس روز حضرت عائشہؓ کا انتقال ہو ا، اس روز حضرت اُم سلمہؓ نے فرمایا: ’’آج اس ہستی کا انتقال ہواہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب تھیں۔‘‘ پھر فرمایا: ’’استغفراللہ! ان کے باپ ابو بکر صدیقؓ کو چھوڑکر۔‘‘ (مستدرک حاکم 13/4۔ مجمع الزوائد 242/9)


17 رمضان، یوم وفات اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر جناب اشتیاق احمد کی خصوصی تحریر ٭

t حضرت عائشہؓ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ تمام ازواجِ مطہرات کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باری ایک ایک رات تھی، لیکن حضرت عائشہؓ کے لیے دو راتیں تھیں۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ خود فرماتی ہیں: ’’جب حضرت سودہ بنتِ زمعہؓ عمر رسیدہ ہو گئیں تو انہوںنے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول! میں اپنا دن عائشہؓ کو دیتی ہوں۔‘‘ چنانچہ آپ کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہؓ کے ہاں 2 دن قیام فرماتے، ایک دن ان کا اپنا اور ایک دن سیدہ سودہؓ کا۔ (بخاری: حدیث نمبر 5212، مسلم حدیث:1463 )
ایک خصوصیت سیدہ عائشہؓ کی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر روز اپنی ازواجِ مطہرات کے ہاں کچھ وقت کے لیے تشریف لے جاتے، اور اس دورے کا اختتام سیدہ عائشہؓ پر فرماتے۔ ( السحط الثمین: حدیث 43)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: ’’میں عائشہ سے محبت کرتاہوں، تم بھی ان سے محبت کرو۔‘‘ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات نے سیدہ فا طمتہ الزھراؓ کو حضور کی خدمت میں بھیجا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہؓ کی چادر میں آرام فرما رہے تھے...سیدہ فاطمہؓ نے عرض کیا: ’’اے اﷲ کے رسول! آپ کی ازواج نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے، ان کا کہنا ہے کہ آپ بنتِ ابی قحا فہ (سید ہ عائشہ) کے بارے میں عدل سے کام لیں۔‘‘ سیدہ عائشہ یہ سن کر کچھ نہ بولیں، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: ’’اے میری پیاری بیٹی! کیا تم اس سے محبت نہیں کرتیں جس سے میں محبت کرتا ہوں۔‘‘ سیدہ فاطمہؓ نے فرمایا: ’’کیوں نہیں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’بس تم بھی عائشہ سے محبت کیا کرو۔‘‘ ( مسلم: حدیث نمبر2442، بخاری: حدیث نمبر2581)
حضرت عائشہؓ کے بارے میں ایک مرتبہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’عائشہ کے بارے میں مجھے اذیت نہ دو، کیونکہ کسی دوسری بیوی کے بستر پر مجھ پر وحی نازل نہیں ہوئی سوائے عائشہ کے۔‘‘ ( بخاری: حدیث 2581، مسلم: حدیث 2441)
سیدہ عائشہؓ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ایامِ مرض میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے آخری ایام سیدہ عائشہؓ ہی کے ہاں گزارے ہیں، بلکہ دوسری ازواج مطہرات سے اپنی اس خواہش کا اظہار بھی کیا اور سیدہ فرماتی ہیں: ’’رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا انتقال اس حالت میں ہوا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا سر مبارک میرے سینے کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ وفات سے ذرا دیر پہلے سیدنا ابو بکر صدیقؓ کے صاحب زادے حضرت عبدالرحمن خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ اس وقت حضرت عبدالرحمنؓ کے ہاتھ میں مسواک تھی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسواک کی طرف نظر جما کر دیکھا۔ سیدہ عائشہؓ نے محسوس کیا کہ آپ مسواک کرنا چاہتے ہیں، چنانچہ آپ نے اپنے بھائی سے مسواک لے کر اپنے دانتوں سے نرم کی اور آپ کو پیش کی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بالکل تندرستوں کی طرح مسواک فرمائی۔ سیدہ عائشہؓ نہایت فخر سے فرمایا کرتی تھیں: ’’تمام از واج میں مجھ کو یہ شرف حاصل ہے کہ آخر وقت میں بھی میرے منہ سے نرم کی گئی مسواک آپ نے استعمال فرمائی۔‘‘ ( یعنی اس مسواک پر میرا لعابِ دہن لگا ہوا تھا۔) (بخاری: حدیث 3100، 3774، 3099، مسلم: 2444,2443، ترمذی فی شمائل: 368)
سیدہ عائشہؓ کے بارے میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عائشہ کی فضلیت دوسری تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کی دوسرے تمام کھانوں پر۔‘‘ ( ابنِ ابی شیبہ: 13/12، مسند احمد: 261/3، بخاری: حدیث نمبر3770، مسلم: حدیث نمبر2446)
سیدہ عائشہؓ کی ایک بہت انوکھی خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے سیدنا جبرئیل علیہ السلام کو دیکھا اور انہوںنے سیدہ کو سلام کیا۔ امام احمد نے روایت کی ہے، سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں: ’’ایک مرتبہ میں نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو گھوڑے کی گردن پر ہاتھ رکھے ہوئے ایک شخص سے باتیں کرتے دیکھا۔ میں نے عرض کیا: ’’اے اﷲ کے رسول ! میں نے آپ کو دحیہ کلبی کے گھوڑے کی گردن پر ہاتھ رکھے ہوئے، ان سے باتیں کرتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’کیا تم نے انہیں دیکھاہے ؟‘‘ سیدہؓ نے عرض کیا: ’’جی ہاں!‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’وہ دحیہ کلبی نہیں، بلکہ جبرئیل علیہ السلام تھے اور وہ تمہیں سلام کہتے تھے۔‘‘ یہ سن کر سیدہ عائشہؓ نے فرمایا: ’’وعلیہ السلام ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ، اﷲ تعالیٰ انہیں اچھی جزا دے۔ میزبان بھی بہترین اور مہمان بھی بہترین۔‘‘ (مسند احمد: 84/6، ابن ابی شیبہ:130/12) ایک روز آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے عائشہ! یہ جبرئیلِ امین تمہیں سلام کہتے ہیں۔‘‘ سیدہ عائشہؓ نے جواب میں فرمایا: ’’وعلیہ السلام ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ!‘‘ (ابنِ شیبہ: 133/12، المعجم الکبیر: 36/23، امام بخاری نے باب الملا ئکہ حدیث 3217 اور مسلم نے حدیث 2447 میں ایسے ہی ذکر کیا ہے۔ )
سیدہ عائشہؓ کی ایک بہت بڑی فضلیت یہ ہے کہ جب منافقین نے ان پر بہتان لگایا تو اﷲ تعالیٰ نے ان کی پاکیزگی اور براء ت بذریعہ وحی آسمانوں سے نازل فرمائی... اس واقعے کا ذکر حدیث کی مختلف کتب میں ہے۔ یہ واقعہ، ’’واقعہِ افک‘‘ کہلاتا ہے۔ ملاحظہ ہو۔ بخاری: حدیث نمبر4750، مسلم: حدیث نمبر 2771، ترمذی: 3179) چونکہ یہ کافی طویل واقعہ ہے، اس لیے ہم آیندہ کسی شمارے میں اس واقعے کا ذکر کریں گے ان شاء اﷲ۔ tآپ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپ علم وفقہ میں سب سے بڑی عالم تھیں۔ امام زہریؒ فرماتے ہیں: ’’اگر اس اُمت کی تمام عورتوں کا علم جن میں ازواجِ مطہرات بھی شامل ہیں، جمع کیا جائے تو بھی سیدہ عائشہؓ کا علم ان سب سے زیادہ ہوگا۔‘‘ (المعجم الکبیر، طبرانی: 184/23، مستدرک: 11/4 ) ابو موسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں: ’’ہم اصحابِ رسول کو جب بھی کسی مسئلے اور حدیث کے بارے میں اشکال واقع ہوتا تھا تو سیدہ عائشہؓ کے پاس جاتے تھے اور اس کا جواب اور علم ان کے پاس پاتے تھے۔‘‘ ( ترمذی: حدیث نمبر2877) حضرت عروہ بن زبیر فرماتے ہیں: ’’میں نے علم القرآن، علم الفرائض، حلال و حرام کے علم میں، فقہ، طب، شعر اور انساب کے علوم میں سیدہ عائشہؓ سے زیادہ عالم اور کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘ ( مستدرک حاکم: 11/4)
یہ صرف چند خصوصیات بیان کی جا سکیں... ان کے علاوہ بھی سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی خصوصیات ہیں۔ اﷲ کی ان پر کروڑوں رحمتیں ہوں۔ آمین !
Flag Counter