Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن11 تا 17 جولائی 2014

ہ رسالہ

6 - 8
تاریخ کا ایک ورق
وہ ایک انتہائی مقبول شاعر تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ شوقیہ مصوری بھی کرتا تھا، لیکن اس کی شہرت کی اصل وجہ اس کی مشہور نظم ’’Confesion de un Saldado‘‘ (ایک فوجی کے اعترافات) تھی جو اس نے 1946ء میں صرف 17 سال کی عمر میں لکھی۔ 6 افراد کے ساتھ مل کر ایک میوزیکل گروپ ’’بیونس آئرس‘‘ بنایا، لیکن وہ نکارا گوا کے گوریلوں کا ساتھی تھا جو حکومت کے خلاف جدوجہد میں مصروف تھے۔ اس کے تعلقات ایک خاتون صحافی ’’ایمپرو زیلیا‘‘ کے ساتھ تھے۔ 21 ستمبر 1956ء میں یہ خاتون اپنے اس محبوب شاعر اور موسیقار ’’ریگوبرٹو‘‘ کو انتہائی شاندار کلب میں ایک کافی پارٹی میں لے گئی جس میں نکاراگوا کا صدر سموزا بھی موجود تھا۔ پارٹی کے دوران اس انقلابی شاعر اور موسیقار نے پستول نکالا۔ صدر سموزا کے سینے میں گولیاں اُتار دیں اور بھاگ نکلا۔ سموزا کو پانامہ کینال ہسپتال میں داخل کیا گیا جہاں وہ چند روز موت و حیات کی کشمکش میں رہنے کے بعد انتقال کرگیا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب پورے جنوبی امریکا کے ممالک میں گوریلا کارروائیاں جاری تھیں۔ گوریلے بندوق کے ذریعے اپنے ملکوں میں ’’کمیونسٹ شریعت‘‘ نافذ کرنا چاہتے تھے۔ ان کو کچلنے کی خاطر امریکا نے فوجیوں کو تربیت دینے کے لیے اسکول آف امریکاز کھول رکھا تھا۔ جہاں انہیں گوریلوں کے خلاف فوجی ایکشن کرنے، انہیں صفحۂ ہستی سے مٹانے، ان پر بدترین تشدد کرنے اور انہیں مختلف غیرانسانی طریقوں سے نفسیاتی مریض بنانے کی ٹریننگ دی جاتی تھی۔ آج بھی اس اسکول کے بنائے گئے مینوئل دنیا بھر میں ریاستی جبر و تشدد کی تاریخ میں اہم دستاویز سمجھے جاتے ہیں۔

دوسری جانب وہ گوریلے تھے جو فوجی قافلوں پر حملے کرتے، انہیں اغوا کرتے، بدترین طریقے سے قتل کرتے۔ ان میں سے یہ طریقہ عام تھا کہ وہ اپنے قیدی کے نازک اعضا کاٹ دیتے اور خون بہنے دیتے۔ گوریلے عام لوگوں کو بھی جنہیں وہ مخبر یا حکومت کا سرگرم ساتھی سمجھتے، اغواء کرتے، مار دیتے یا پھر ہاتھ پائوں توڑ کر معذور بناکر پھینک دیتے۔ کمیونسٹ گوریلوں کے علاوہ دائیں بازو کے سرمایہ دارانہ ذہنیت کے حامل جمہوریت پسند گوریلے بھی تھے جنہیں امریکی مدد حاصل تھی۔ یہ بندوق کے زور پر ملک میں سرمایہ دارانہ جمہوریت نافذ کرنا چاہتے تھے۔ ان کے بہت سے گروہ تھے جنہوں نے مل کر ایک بڑا گروپ تشکیل دیا جسے ’’کونٹراز‘‘ کہتے تھے۔ یہ گروہ ایک سے زیادہ ملکوں میں اپنا اثر و رسوخ رکھتا اور گوریلا کارروائیاں کرتا تھا۔ امریکا نے 1984ء سے 1987ء تک اس گروہ کو خفیہ طریقے سے 40 ملین ڈالر کی امداد اور اسلحہ فراہم کیا۔ ان کی کارروائیاں نکاراگوا، ہنڈراس اور کوسٹاریکا جیسے ممالک میں تھیں، جبکہ کمیونسٹ گوریلے السلواڈور سے لے کر چلی تک دیگر ممالک میں سرگرم عمل تھے۔ ایک گروہ طاقت کے زور پر ’’سرمایہ دارانہ جمہوری شریعت‘‘ کا نفاذ چاہتا تھا اور دوسرا گروہ ’’کمیونسٹ شریعت‘‘ کا غلبہ۔ دونوں گروہ اپنی اپنی ریاستوں کے خلاف لڑرہے تھے۔ کمیونسٹ گروہ کو کیوبا کے ذریعے سوویت یونین کی امداد حاصل تھی۔
اس آگ نے جنگِ عظیم اوّل کے بعد سلگنا شروع کیا اور سوویت یونین کے زوال کے کئی سال بعد تک اس کی زد میں آئے۔ کئی ملک امن و امان کی زندگی کو ترس گئے۔ امریکی اسلحے کی فروخت کے لیے بازار سجے ہوئے تھے۔ خریدو فروخت کے بازار کا سب سے بڑا اسکینڈل ایران کونٹراز اسکینڈل تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کونٹرا گوریلا ہنڈراس کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے جنگ کررہے تھے۔ ادھر امریکا نے دنیا کو اپنا چہرہ خوبصورت دکھانے کے لیے 1984ء میں کونٹرا گوریلا کی امداد کم کرنے کے لیے بل پاس کردیا، لیکن ریگن انتظامیہ نے خفیہ طور پر کام جاری رکھا اور کونٹراز کے ذریعے ایران کو اسلحہ فروخت کرنا شروع کردیا تاکہ اس رقم سے کونٹرا کی امداد کی جائے۔ ایران کو عراق کے خلاف اسلحہ کی ضرورت تھی۔ اس کام میں اسرائیل کا وزیراعظم شمعون پیریز شامل ہوا۔
اس نے ایک ایرانی منوچہر قربانی فر کو جو امریکا میں مقیم تھا، ایرانی حکومت سے معاملہ کرنے پر مجبور کیا جسے اس آڑے وقت میں اسلحے کی ضرورت تھی۔ یوں اگست 1985ء سے اکتوبر 1996ء تک ایران کو اسلحہ کی ترسیل اسرائیل کے ذریعے جاری رہی جس کے بدلے میں ایران نے لبنان میں حزب اللہ پر اپنا اثر و رسوخ ڈالا تاکہ وہ ان امریکیوں کو رہا کردے۔ یوں حزب اللہ نے جولائی 1986ء میں 2 اور اکتوبر 1986ء میں 3 امریکیوں کو رہا کردیا۔ اس کے شکرانے کے طور پر سی آئی کے سربراہ ویلیم کیسی نے ایران کو اگلے 10 سال تک اسلحے کی ترسیل جاری رکھی۔ اس اسلحے کے فروخت کی آمدنی جنوبی امریکا کے ان گوریلوں پر خرچ ہوتی جو اپنے ملکوں میں ریاستوں کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے تھے۔
جس دور میں ان تمام ممالک میں جنگیں جاری تھیں، ایک ملک کے گوریلے دوسرے ملک میں دندناتے پھرتے تھے۔ چی گویرا جس کی تصویریں آج بھی کئی انقلابی اپنی گاڑیوں اور دفتروں میں لگاتے ہیں، ارجنٹائن میں پیدا ہوا۔ بولیویا، پیرو، یوسی ڈور، پانامہ، کوسٹاریکا، نکاراگوا، ہنڈراس اور السلواڈور میں ’’کمیونسٹ جہاد‘‘ کرتا کیوبا میں امریکا سے لڑنے لگا۔ آخر میں بولیویا میں 8 اکتوبر 1967ء کو پکڑا گیا۔ بولیوین فوج کے ایک سپاہی ماریوتیران نے درخواست کی کہ اسے چی گویرا کو گولی مارنے دی جائے، کیونکہ اس کے تین بہترین دوستوں کو اس کے گوریلوں نے بدترین تشدد سے ہلاک کیا تھا۔ اس سے آخری سوال یہ کیا گیا کہ کیا تم نے جو غیرانسانی سلوک کیے، انک ے بارے میں موت سے پہلے سوچ رہے ہو؟ اس نے کہا: ’’I am thinking of immorality of revolution‘‘ (میں تو انقلاب کی غیر اخلاقی نفسیات پر غور کررہا ہوں) جس طرح چی گویرا آج ہیرو ہے جو کمیونسٹ شریعت کا نفاذ چاہتا تھا، اسی طرح ریگوبرٹو کا مجسمہ بھی نکاراگوا میں نصب ہے جو سرمایہ دارانہ جمہوری شریعت کو طاقت سے نافذ کرنا چاہتا تھا اور ریاست کے سربراہ کا قاتل بھی تھا۔
لاکھوں لوگوں کے قتل کے بعد ان تمام ریاستوں نے فیصلہ کیا کہ ہم نے اپنے ملکوں میں امن قائم کرنا ہے۔ ادھر روس ختم ہوچکا تھا، کمیونسٹ انقلاب دَم توڑ چکا تھا، مگر امریکا باقی تھا۔ انہوں نے امریکا کو خیرباد کہا۔ اس کے مفادات سے اپنے آپ کو علیحدہ کیا اور ریاست کے دُشمنوں سے مذاکرات شروع کیے۔ کونٹراز سے مذاکرات کا آغاز 28 جنوری 1988ء کو ہوا۔ وہی آغاز جو عموماً ہوتا ہے ہتھیار رکھو، آئین تسلیم کرو، قیدی رہا کرو، لیکن امریکا کی مداخلت بھی جاری رہی اور گوریلا کارروائیاں بھی چلتی رہیں۔ ایکشن ہوتے رہے اور مذاکرات بھی چلتے رہے۔ کونٹرا گوریلوں پر الزام بھی شدید تھے۔ وہ ڈاکٹروں اور نرسوں کو قتل کرتے تھے۔ ہسپتالوں کو آگ لگاتے تھے۔ عام شہریوں کے قتل اور اغوا میں ملوث تھے۔ جن شہروں میں قبضہ کرتے اس کی املاک جلادیتے۔ عورتوں کو جنسی تشدد کے بعد قتل کرتے۔
اسی طرح کے الزامات دوسرے انقلابی گروہوں پر بھی تھے، لیکن ان تمام ممالک نے کئی سال کے مذاکرات کے بعد اپنے ملکوں میں امن قائم کرلیا۔ جب بھی مذاکرات شروع ہوتے تو امریکی میڈیا اور اس کے حواری چیختے۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں شور مچاتیں۔ آج بھی ان کی رپورٹیں مظالم کی داستانوں سے بھری پڑی ہیں، لیکن وہ تمام رپورٹیں گرد آلود الماریوں کا حصہ بن چکی ہیں، کیونکہ جنوبی امریکا کے ان تمام ممالک کی حکومتوں نے سارے زخم بھلاکر امن کے سفر کا آغاز کردیا ہے۔ جو جنگ امریکا نے شروع کی تھی اور اسے ان ممالک کی جنگ بنادیا تھا، انہوں نے امریکی مفادات کو اپنی سرحدں سے باہر دھکیل دیا ہے۔ اسکول آف امریکاز بند ہوگیا، گوریلا شہری زندگی کا حصہ بن گئے۔ یہ بہت صبر آزما کام ہے، یہ کٹھن مرحلہ ہے، لیکن قومیں اگر خود فیصلہ کریں تو ممکن ہے۔
Flag Counter