Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن11 تا 17 جولائی 2014

ہ رسالہ

5 - 8
دو راہنما اصول
اس کے خاوند کا کچھ عرصہ قبل ہیپاٹائٹس کی وجہ سے انتقال ہوگیا۔ دو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ کمانے والا کوئی نہیں، 5 ہزار کے گھر کے کرایے میں مقیم ہے۔ یہ خاتون روزانہ بچوں کا نان نفقہ پورا کرنے کے لیے گائوں سے مسواک کاٹتی ہے۔ پھر سارا دن اس سڑک کنارے بیچتی ہے۔ لوگ آتے ہیں، مسواک خریدتے ہیں یا پھر مسواک کے بہانے خیرات دے جاتے ہیں اور اس سے زندگی بسر کر رہی ہے۔ خاتون کی کہانی بہت طویل تھی، لیکن مجھے احساس تھا میرے بچے افطار دسترخوان پر میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔ میں نے دونوں شاپر خاتون کے حوالے کیے۔ خیرات کی کچھ رقم اس کے ہاتھ پر رکھی۔ گاڑی میں بیٹھ کر گھر آ گیا۔ گھر پہنچتے ہی میں نے دیکھا دسترخوان پرانواع اقسام کی نعمتیں سجی ہیں۔ تین چار قسم کے مشروب رکھے ہیں۔ میرے بچے دسترخوان پر آلتی پالتی مارے بیٹھے ہیں۔ میں یہ منظر دیکھ کر بھی سہم گیا۔ میں دسترخوان پر بیٹھتے ہی سوچنے لگا اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیںاتنی بے تحاشا نعمتوں سے نوازا۔ اس کریم ربّ کا احسان کہ اس نے میرے بچوں کو بھوکا نہیں رکھا۔ یہ بلک نہیں رہے، یہ تڑپ نہیں رہے۔ میں دل ہی دل میں سوچے جا رہا تھا۔ وہ خاتون اور اس کے دوبچے اس وقت بھی سڑک کنارے بلک رہے ہوں گے، جب ہم جیسے کروڑوں باپ، کروڑوں بیٹے اور کروڑوں مائیں خوش ذائقہ کھانوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ میں یہی سوچ رہا تھا کہ اذان کی آواز گونجی اور ہم سب افطار دسترخوان پر ٹوٹ پڑے۔
یہ کہانی صرف ایک خاتون اور اس کے دو بچوں تک محدود نہیں۔ آپ ملک کے کسی شہر، کسی شہر کی کسی بھی گلی میں نکل جائیں،

آپ کو اس خاتون اور اس خاتون کے بچوں جیسے بے تحاشا بچے ملیں گے، بھوکے، ننگے، پیاسے بچے اور بھیک مانگتی مائیں۔ ہو سکتا ہے ان میں سے اکثر پیشہ ور بھکاری ہوں، لیکن ان میں ایسے لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں جو حقیقی مفلس، نادار اور محتاج ہیں۔ جو غریب اور مفلوک الحال ہیں۔ آپ اس سے اندازا لگا لیں پاکستان میں تقریباً 6 کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیںیعنی یہ لوگ روزانہ دو ڈالر (200 روپیہ) نہیں کما سکتے، مگر مہنگائی کا عالم یہ ہے کہ یہ 8 فیصد تجاوز کر رہی ہے۔ عام دنوں میں یہ 8 فیصد اگر قابل برداشت نہیں تو ماہِ رمضان المبارک میں یہ 16 سے 18 فیصد تک جاپہنچتی ہے۔ اس مہنگائی کے طوفان میں عام آدمی پر کیا گزرتی ہے، اس کا اندازا کوئی کر سکتا ہے؟
ہمارے ہاں رمضان المبارک کا مہینہ اس لحاظ سے زیادہ بھاری ثابت ہوتا ہے جس کنبے کا ماہانہ خرچ 20 ہزار روپے ہے، ماہ رمضان میں اس کا خرچ 50 ہزار سے بھی تجاوز کر جاتا ہے، کیوں؟ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ ہمارے انواع و اقسام کے کھانے ہیں۔ ہم افطار میں کچھ کھائیں یا نہ کھائیں، لیکن ہمارے دسترخوانوں پر درجنوں اشیاء کی سجاوٹ ضروری ہوتی ہے۔ دوسری وجہ مہنگائی ہے۔ عام دنوں میں جو اشیاء ایک ہزار روپے میں آ جاتی ہیں، رمضان میں وہی اشیاء 2 سے 3 ہزار روپے میں ملتی ہیں۔ مثلاً رمضان سے پہلے سیب 60 روپے کلو تھا تو رمضان شروع ہوتے ہی اس کی قیمت 160سے 220تک پہنچ گئی۔ کیلا جو رمضان سے پہلے 100 روپے درجن تھا، اس کی قیمت 200 تک چلی گئی۔ اسی طرح دیگر فروٹ اور سبزیوں کے نرخ بھی تین تین گنا بڑھا دیے گئے۔ جو سبزی رمضان سے قبل 50 روپے کلو تھی وہ اب 100 روپے سے کم نہیں ملتی۔ اسی طرح مشروبات سے لے کر دیگر اجناس تک ہر شے کی قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں۔ بعض شہروں میں حکومت نے سستے بازاروں کا اہتمام بھی کیا ہے، لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ ان سستے بازاروں میں زیادہ تر اشیاء کا معیار ٹھیک نہیں۔ یہ وزن میں کم ہوں گی یا دوسرے درجے کی ہوں گی۔ تاجر ریٹ بڑھا دیتے ہیں۔ رمضان سے پہلے اشیاء ذخیرہ کرلیتے ہیں۔ رمضان آتے ہی ان کی قیمتیں بڑھا کر زیادہ منافع کمانے کے لیے مارکیٹ میں لے آتے ہیں۔ اصل شے دکھا کر جعلی بیچتے ہیں حتیٰ کہ فروٹ میں بھی ملاوٹ کی جاتی ہے۔ فروٹ کے کلر اور ذائقے کو تبدیل کرنے کیلئے بعض مخصوص محلول اور انجکشن استعمال کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح گوشت کا وزن بڑھانے کے لیے اس کو پانی میں چھوڑ دیا جاتا ہے یا پانی کے انجکشن لگائے جاتے ہیں۔ یہ کسی ایک شہر یا علاقے میں نہیں ہورہا، یہ پورے پاکستان میں ہورہا ہے۔


٭ آپ اپنے لیے جو پسند کرتے ہیں وہی دوسرے مسلمان بھائی کے لیے بھی پسند کریں۔ ٭ اگر رمضان کی اصل حقیقت تک پہنچنا چاہتے ہیں تو اپنا پیٹ کاٹ کر غریبوں کا پیٹ بھریں، اسی میں اللہ کی رضا چھپی ہے۔ ٭ ہم سب لوگ تہیہ کر لیں ہم کھانا ضائع نہیں کریں گے۔ ہم اضافی کھانا غرباء و مساکین میں تقسیم کر دیں تو اس سے بھی غربت میں بڑی حد تک کمی ہوسکتی ہے۔ ٭

حکومتی سطح پر کمشنر اور ڈپٹی کمشنر یعنی ضلعی انتظامیہ ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی اور نرخوں کی بڑھوتری کو روکنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ باقاعدہ فوڈانسپکٹر تعینات ہوتے ہیں۔ یہ اشیاء کے ریٹ اور کوالٹی چیک کرتے ہیں۔ انہی خدمات کے عوض تنخواہ پاتے ہیں، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں ادارے ہیں، ان میں اہلکار بھی ہیں۔ ان کے پاس اختیارات بھی ہیںاوریہ تنخواہیں بھی لیتے ہیں، لیکن افسوس یہ قانون پر عملدرآمد نہیں کرسکتے۔ یہ اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں یا پھر رشوت لے کر چھوڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے بُرائی کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ یہ وہ بنیادی غفلت ہے جس کی وجہ سے مہنگائی میں روزافزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ غریب غریب تر ہورہا ہے۔ ہمارے ارد گرد ہزاروں لوگ بھوک و افلاس کا شکار ہیں۔ لاکھوں مفلوک الحال اور نادار ہیں۔
ان سطور کے ذریعے غربت ختم کرنے کے صرف دو اہم اصول بتانا چاہتا ہوں۔ پہلے نمبر پر ہم سب لوگ کفایت شعاری کا مظاہرہ کریں۔ ہم اپنے افطار دسترخوان سے ہی اگر دو دو چیزیں کم کردیں۔ یہ دو چیزیں پڑوس میں موجود غریب شخص تک پہنچا دیں تو اس سے ہماری افطاری بھی اچھی ہو جائے گی اور (باقی صفحہ5پر) ہمارا پڑوسی بھی خوشی خوشی افطاری کرے گا۔ دوسر ا اصول اگر ہم سب لوگ تہیہ کر لیں ہم کھانا ضائع نہیں کریں گے۔ ہم اضافی کھانا غرباء و مساکین میں تقسیم کر دیں تو اس سے بھی غربت میں بڑی حد تک کمی ہوسکتی ہے۔ آپ خود اندازا لگا لیں ہمارے شہروں میں کتنے ہوٹلز ہیں۔ ان ہوٹلز میں اعلیٰ معیار کے کتنے ہوٹلز ہیں۔ ان ہوٹلز میں روزانہ پارٹیوں اور تقریبات میں منوں بلکہ ٹنوں کے حساب سے کھانا کچرا کنڈی میں پھینکا جاتا ہے۔ اگر یہی ہوٹلز مالکان اس بچ جانے والے کھانے کو پیک کروائیں۔ اسے غریب اور ناداروں میں تقسیم کریں تو اس سے بھی بڑی حد تک غریبوں کی امیدیں بھر آئیں۔
اس کے علاوہ ماہ رمضان میں مخیر حضرات صدقہ و خیرات اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ ان کی خدمت میں بھی درخواست ہے یہ سب سے پہلے اپنے رشتہ دارعزیزوں کا خیال رکھیں۔ فیملی خاندان سے غریب لوگوں کا انتخاب کریں۔ ان کی دلجوئی کریں۔ ان کی مدد کریں۔ اس کے بعد گلی محلہ اور دوسروں لوگوں کو خیرات دیں۔ اس سے صدقہ و خیرات مستحق لوگوں تک پہنچ پائے گا۔ دوسرا پیشہ ور بھکاریوں کا کاروبار ٹھپ ہوجائے گا۔ میں سوچتا ہوں تو خوف سے لرز اٹھتا ہوں کہ اس ملک میں برقعہ پوش خاتون جیسی کتنی مائیں ہوں گی جو اپنے بچوں کو دودھ تو پلانا چاہتی ہوں گی، لیکن خوراک کی کمی کی وجہ سے ان کی چھاتیوں سے دودھ کا ایک قطرہ نہ ٹپکتا ہوگا۔ اس وقت بھی جب ہم افطار ڈنر کا اہتمام کررہے ہیں کتنی مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور بزرگ سڑکوں پر کسی مسیحا، کسی مدد گار کے منتظر ہوں گے۔ یہ لوگ ہماری بے حسی اور زیادتی کی وجہ سے اس حال میں مبتلا ہیں۔ جب تک ہم ان لوگوں کا خیال نہیںرکھیں گے اس وقت تک نہ ہمارے روزے کسی کام کے اور نہ ہی عزیز رشتہ داروں کے لیے رنگ و روغن کے دسترخوان سجانے کا کوئی فائدہ۔ اللہ کی رضا اسی میں ہے کہ آپ اپنے لیے جو پسند کرتے ہیں وہی دوسرے مسلمان بھائی کے لیے بھی پسند کریں۔ یہ نہیں ہو سکتا آپ من وسلویٰ کھائیں، آپ کے پڑوسی کے بچے بھوک سے مر جائیں۔ اگر رمضان کی اصل حقیقت تک پہنچنا چاہتے ہیں تو اپنا پیٹ کاٹ کر غریبوں کا پیٹ بھریں۔ اسی میں اللہ کی رضا چھپی ہے۔
Flag Counter