’’صفائی نصف ایمان‘‘
میرے ایک دوست سیاحت کے لیے بیرونِ ملک گئے۔ وہاں انہوں نے کئی دوست بنا لیے۔ ان میں سے ایک اپنے کام دھندے چھوڑ کر میرے دوست کو سیر کرواتا رہا۔ وہ انہیں کئی شہروں میں لے کر گیا۔ وہاں انہوں نے تاریخی مقامات دیکھے۔ آرٹ گیلریوں میں فنی شہ پاروں کا دیدار کیا۔ پرانے بادشاہوں کے محلات اور باغوں کا نظارہ کیا۔ یوں میرے دوست نے خوب مزا اٹھایا۔ ایک دن ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ ان دونوں کی دوستی فی الفور ٹوٹ گئی۔ بات بظاہر چھوٹی سی تھی پر اس ملک کی معاشرت میں یہ بڑا جرم گردانا جاتا تھا۔ میرے دوست نے دو آئس کریمیں خریدیں۔ آئس کریم کھانے کے بعد اس کا پیکٹ سڑک پر پھینک دیا۔ اس بات پر اس ملک کا شہری آگ بگولہ ہو گیا۔ اس نے میرے دوست کو کھری کھری سنائیں۔ اسے جاہل، اجڑ اور اَن پڑھ گنوار کہا۔ اپنا سامان اٹھایا اور غصے میں بڑ بڑاتا ہوا چلا گیا۔
دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک میں صفائی وہاں کے لوگوں کی سرشت میں داخل ہوچکی ہے۔ آپ کو سڑکوں پر کاغذ کا ایک ٹکڑا نظر نہیں آئے گا۔ ہوا میں اُڑتے شاپنگ بیگ دکھائی نہیں دیں گے۔ پان کی پیکوں سے دیواریں، گلیاں، چوراہے داغدار نہیں ملیں گے۔ ہر چند قدم کے فاصلے پر کوڑے کے لیے باسٹک دکھائی دے گی۔ ہر شہری کھانے پینے کے بعد لفافے ان میں ڈال دیتا ہے۔ کوئی سڑکوں پر تھوکتا نہیں۔ کوئی اپنے گھر کا کوڑا ہمسائیوں کے گھر کے سامنے ڈھیر کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ لوگ گلیوں کو اسی طرح صاف رکھتے ہیں جیسے وہ اپنے گھروں کوچمکاتے ہیں۔
آپ صبح بوٹ پالش کر کے نکلتے ہیں شام تک گھومنے کے بعد بھی ان پر گرد دکھائی نہیں دیتی۔ صفائی کا خیال نہ رکھنے والا سماجی بائیکاٹ کی تلوار کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ اس پر نفرین کی نظر ڈالی جاتی ہے۔ وہ اپنے جرم کی فوراً تلافی کرتا ہے۔ یوں ان ملکوں میں آپ کو شہر قصبے اُجلے دکھائی دیں گے۔ یہی اُجلا پن لوگوں کے لباسوں اور چہروں پر نظر آئے گا۔ جو لوگ اپنے ملک کو صاف ستھرا رکھتے ہیں وہ اپنے لباس، اپنے گھر، دفتر سب کو اجال دیتے ہیں۔ یہی اجلا پن ان کی سوچ میں گھل مل کر انہیں تہذیب یافتہ بنادیتا ہے۔
بدقسمتی سے ہم ’’صفائی نصف ایمان‘‘ کا زبان سے اقرار کرتے ہیں۔ معاشرتی طور پر ہمارا رویہ اس کے بالکل الٹ ہے۔ ہم اپنا کوڑا کرکٹ گلیوں میں ڈھیر کر دیتے ہیں۔ بازاروں میں کھاتے پیتے ہوئے لفافے اور شاپنگ بیگ پھینک دیتے ہیں۔ ہم گلیوں میں تھوکتے رہتے ہیں۔ پان کی پیکوں سے دیواروں پر نقش و نگار بناتے رہتے ہیں۔ یوں ہمارے بڑے شہر غلاظت کا ڈھیر دکھائی دیتے ہیں۔ جہاں بیماریاں پروان چڑھتی ہیں۔ وبائیں سر اٹھاتی رہتی ہیں۔ ہمارے بچے ہماری دیکھا دیکھی یہی طرزِ عمل اپنا لیتے ہیں۔ یوں ایک سماجی سرکل چلتا رہتا ہے۔ جس میں سے وقت کے ساتھ ساتھ مزید گندگی، غلاظت اور بیماری نکلتی رہتی ہے۔ ہم لوگ اپنے پارکوں کو دیکھیں تو وہاں بھی لوگ اس بدفعلی کے مرتکب نظر آئیں گے۔ ہمارے سرکاری دفتروں میں مجموعی طور پر گندگی دکھائی دے گی۔ بسوں اور ویگنوں کے اڈّوں پر بھی یہی نحوست منڈلاتی نظر آتی ہے۔ ہماری پبلک ٹرانسپورٹ بدبو کی سرانڈ سے بھری ہوئی ہے۔ لوگ ٹرینوں میں قے کرتے نظر آئیں گے۔ یوں پورے کا پورا معاشرہ مجموعی طور پر نصف ایمان سے تہی دست نظر آئے گا۔
ہمارے شہروںکے پوش علاقوں میں صورت حال بہتر نظر آتی ہے۔ ان میں بڑے لوگ اقامت رہتے ہیں۔ ان کا حکومتوں پر اثر و رسوخ ہے۔ یوں وہاں سلیقے کی صفائی نظر آتی ہے۔ فٹ پاتھوں پر گھاس وقتاً فوقتاً کاٹی جاتی ہے۔ سیوریج کا نظام مکمل طور پر انڈر گراونڈ ہے اس لیے بدبو اور سرانڈ نہیں پھیلتی۔ کوڑا کرکٹ اٹھانے کے لیے ٹرک رواں دواں رہتے ہیں۔ یوں ان علاقوں کو یورپی بود و باش دکھائی دیتی ہے۔ درمیانے، متوسط طبقے کی سکونت گالیوں میں معاملات دگرگوں رہتے ہیں۔ یہاں کے بانسیوں کی آواز اقتدار کے نقار خانے میں سنی نہیں جاتی۔ صفائی کے محکمے عدم توجہی برتتے ہیں۔ کوڑے کے ڈھیر مہینوں پڑے رہتے ہیں۔ سیوریج انڈر گرائونڈ نہ ہونے کی وجہ سے نالیاں چھوٹی موٹی رکاوٹ پر ابل آتی ہیں۔ غلیظ پانی سے گلیاں بدبودار ہو جاتی ہیں۔ مچھر، مکھیاں اور بیماریوں کے جراثیم پروان چڑھتے رہتے ہیں۔ غریب غربا کی بستیوں میں صورت حال حد درجہ ابتر دکھائی دیتی ہے۔ ان لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے ان میں سے بیشتر آبادیاں ہمارے بڑے شہروں کے چہرے پر بدنما داغ ہیں۔ لوگ علیل بیمار اور بے کس ہیں۔ یہاں مزدور، محنت کش اور دیہاڑی دار طبقہ رہائش رکھتا ہے۔ ان لوگوں کا وجود الیکشن کمیشن کے ریکارڈ اور شناختی کارڈ کے محکمے کی فائلوں کے علاوہ کہیں نہیں ہوتا۔ یہ طبقہ مردم شماری یا جمہوریت کے لیے ووٹنگ کے وقت اس ظالم سماج کو دکھائی دیتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ آبادیاں وقت کے ساتھ ساتھ بڑھے جارہی ہیں۔ یہ غربت کے بیچوں سے پروان چڑھ رہی ہیں۔ آکاس بیلوں کی طرح پھل پھول رہی ہیں۔
جب بیرون صاف ستھرا ہو گا تو اس کا اثر انسان کے اندرون پر پڑے گا۔ ٭ عار کی بات یہ ہے غیرمسلم معاشروں نے ہمارے اس اہم سبق کو اَزبر کرلیا ہے، ہم اس کو فراموش کر چکے ہیں۔ ٭
حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ The Economic Impact of Inadequate Sanitation in pakistanمیں بتایا گیا ہے کہ سینی ٹیشن کی ابتری کا نقصان ہمیں 343.7 بلین سالانہ ہوتا ہے۔ جو ہمارے جی ڈی پی کا 3.9 فیصد ہے۔ گندگی اور آلودگی سے پیدا ہونے والی بیماریوں پر سالانہ 299.55 بلین لاگت آتی ہے جو کہ غریب لوگوں کی جیبوں سے نکالا جاتا ہے۔ Wash Media سائوتھ ایشیاء کے صحافیوں کی ایک تنظیم ہے جس میں پاکستان، نیپال، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے 100
سے زیادہ صحافیوں نے ڈیٹا جمع کر کے بتا یا ہے کہ جنوبی ایشیاء میں پاکستان سینی ٹیشن میں سب سے کم سرمایہ لگا رہا ہے۔ پاکستان دنیا کے ان 57 ملکوں میں شامل ہے جہاں آلودہ پانی کی وجہ سے بیماریاں سب سے زیادہ ہیں۔ اگر آپ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی صورت حال دیکھیں تو یہاں میٹروپولیٹن کارپوریشن کا عملہ اکثر ہڑتال کر دیتا ہے۔ ان کو بروقت تنخواہیں ادا نہیں کی جاتیں۔ اگر وہ ڈیوٹی پر ہوں تب بھی صدر، بزنس روڈ، ٹاور اور اولڈسٹی وغیرہ جیسے ان گنت علاقوں میں اُبلتے گٹر اور بازاروں میں کوڑے کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ بزنس روڈ پر کراچی کی فوڈ اسٹریٹ ہے یہاں کی دگرگوں حالت غذا کو زہر آلود بنا دیتی ہے۔ دوسرے بڑے شہروں میں معاملات اور زیادہ ناگفتہ بہ ہیں۔ ہر سال گندگی کی وجہ سے بیمار ہونے والوں کی تعداد 4 ملین سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ غریبوں کو روزی روٹی کے علاوہ علاج معالجے پر بھاری اخراجات اٹھانا پڑرہے ہیں۔ پانی کی لائنیں اور گٹر سارے ملک میں باہم شر و شکر ہو رہے ہیں۔ اس وجہ سے بھی بیماریاں وبائوں کی صورت پھوٹ رہی ہیں۔
اس ضمن میں حکومت اور عوام دونوں کی سطح پر انقلابی قدم اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت کو اپنی تمام تر نوازشات ملک کے پوش علاقوں پر نچھاور نہیں کرنی چاہییں۔ انہیں متوسط اور غریبوں کی بستیوں پر بھی نظر کرم ڈالنی چاہیے۔ محض ’’ہفتہ صفائی‘‘ منالینے سے اس پیچیدہ مسئلے کا حل نہیں نکل سکتا۔ وزیراعظم، وزرائے اعلی، وزیروں اور مشیروں کو خود مثال بننا چاہیے۔ یہ اگر گلیوں سے کاغذ، شاپنگ بیگ اٹھاتے ہوئے دکھائی دیں گے تو سارا معاشرہ شرم محسوس کرے گا۔ ہر فرد کا ضمیر جاگے گا۔ وہ اپنا سماجی فریضہ سرانجام دینے میں سکون و راحت محسوس کرے گا۔ میونسپلٹی کو فی الفور فعال بنایا جائے۔ سارے ملک میں بلدیاتی انتخابات کروا کر کونسلروں کے یہ ذمہ داری سونپی جائے۔ انہیں پابند بنایا جائے کہ اپنے اپنے حلقوں میں صفائی کا بلند معیار قائم کریں۔ انڈر گرائونڈ سیوریج سارے چھوٹے بڑے شہروں میں مہیا کیا جائے۔ ہر میونسپلٹی کے پاس کوڑا اٹھانے والے ٹرک اور عملہ وافر ہو۔ ہر گلی محلے سے اسے بروقت اٹھا کر تلف کر دیا جائے۔ شاپنگ بیگ نالیوں اور گٹروں کو بند کرنے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ تلف بھی ہو سکتے، ان کی بجائے کاغذی لفافوں کو عام کیا جائے۔ ٹی وی، ریڈیوپر حکومتی قصیدوں کی بجائے مسلسل ایسے پروگرام نشر ہوں جن میں صفائی اور ستھرائی کے محاسن بیان ہوں۔ لوگوں کی کایا کلپ ہو۔ وہ اپنے گھروں کے علاوہ گلی، محلوں، پارکوں، بس اسٹینڈوں، ویگنوں کے اڈّوں، ریلوے پلیٹ فارموں کو صاف ستھرا رکھیں۔ ہر سفری سہولت سے استفادہ کرنے والے مسافر کو احساس دلایا جائے کہ اس پر کتنی بڑی سماجی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ یوں اگر حکمران کوئی مثال قائم کریں گے، اقدام اٹھائیں گے تو عوام بھی ان کے نقش قدم پر چل پڑے گی۔
عوامی سطح پر ہر پاکستانی کو ایمان کے اس نصف کے حصول کے لیے ہر دم کوشاں رہنا ہو گا۔ اسے دل و جان سے یہ احساس ہو کہ ہمارے مذہب نے صفائی کو کس بلند ترین درجے پہ رکھا ہوا ہے۔ عار کی بات یہ ہے غیرمسلم معاشروں نے ہمارے اس اہم سبق کو اَزبر کرلیا ہے، ہم اس کو فراموش کر چکے ہیں۔ ہر شہری حسب استعداد اس کارِ خیرمیں حصہ ڈالے۔ لوگ گلی محلے کی سطح پر کمیٹیاں بنالیں۔ وہ فارغ وقت میں اس مشن میں جت جائیں۔ جب یہ کاررواں آگے بڑھے گا تو صفائی پھیلتی جائے گی۔ گندگی سمٹتی جائے گی۔ سارے کا سارا معاشرہ منقلب ہو جائے گا۔ ہر فرد صحت بخش ماحول میں سانس لے گا۔ ہوا خوشبودار ہوجائے گی۔ بیماریوں میں خاطر خواہ کمی آجائے گی۔ اگر عوامی علاقوں میں دھواں اور آلودگی پھیلانے والے کارخانے قائم ہیں تو ان کو بیرونِ شہر منتقل کیا جانے کی مہم شروع ہو۔ دھواں دیتی بسوں کو درست کیا جائے۔ گندگی پھیلانے والوں کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جائے۔ انہیں احساس دلایا جائے وہ غفلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ یہ معاشرتی پریشر ان کو قومی دھارے میں لے آئے گا۔ یہی وہ دھارا ہے جس کے پھیلائو میں معاشرے کے لیے اوّل درجے کی بہتری ہے۔ جب بیرون صاف ستھرا ہو گا تو اس کا اثر انسان کے اندرون پر پڑے گا۔ لوگ صاف ستھرے لباس، جسمانی صفائی طہارت کی طرف آئیں گے۔ پھر وہ روحانی نشوونما کی منزل تک آن پہنچیں گے۔ بیرونی گندگی اور اندرونی غلاظت دونوں دور ہو جائیں گی۔