Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 16 تا 22 مئی 2014

ہ رسالہ

9 - 11
ماں کے لیے
دنیا کے بیشتر ممالک ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو ’’مدرز ڈے‘‘ مناتے ہیں اور میں اس روز اپنے سسٹم پر پروفیسر انور مسعود کی پنجابی نظم ’’امبری‘‘ لگالیتا ہوں۔ اسے جس کسی صاحب درد نے سُنا، آنکھیں بھر آئیں۔ یہ اس دور کا سچا واقعہ ہے جب صاحب نظم خود اسکول ٹیچر تھے اور ان کا ایک طالب علم اپنی ماں پر تشدد کرتا ہے۔ ایک روز اتنا زیادہ مارتا ہے کہ ماں کی آنکھیں اور ہاتھ سوج جاتے ہیں، پھر ناراض ہوکر جلدی اسکول آجاتا ہے۔ ماں اپنے زخم بھول کر اپنے ہاتھوں سے ناشتہ تیار کرکے دوسرے طالب علم کے ہاتھ بھجوادیتی ہے کہیں کھانا نہ کھانے کی وجہ سے بیٹے کی طبیعت خراب نہ ہوجائے۔ اس بار یوم ماں پر ایک اور ماں یاد آرہی ہے۔ بہت سال گزرے ہیں، تب ہم چھوٹے سے تھے جب گھر میں اچانک کہیں سے ’’بلونگڑا‘‘ (بلّی کا بچہ) آگیا۔ وہ آتوگیا، مگر اسے واپسی کا راستہ نہ ملا۔ ادھر اس کی ماں نے گیٹ پر بے تاب ہوکر دہائی دینا شروع کردی۔ ادھر یہ بے چین ہوکر اپنا سر گیٹ سے ٹکرانے لگا۔ ہم اس وقت بلّی سے بہت ڈرتے تھے اس لیے دل میں ترس آنے کے باوجود کچھ نہ کرسکے بالآخر امّی نے دروازہ کھولا اور بلونگڑا سیکنڈوں کی سی تیزی سے ماں کے ساتھ جالپٹا۔ ویسے تو یہ دن ان کا ہے جو سال کے 364دن اپنی مائوں کو فراموش کیے رہتے ہیں۔ وہ ایک دن اولڈ ہوم میں پڑی ماں کے لیے پھولوں کا تحفہ لے جاکر اگلے364دنوں کے لیے خود کو آزاد کرلیتے ہیں۔ یہ دن ان کا بھی ہے جنہوں نے آج کے دور میں ’’مائیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں‘‘ کا فلسفہ غلط کر دکھایا ہے۔

آج ماں صرف فاتح، ظالم اور قاتل کی ماں ہے۔ مفتوح، مظلوم اور مقتول کی ماں کے سینے میں شاید دل نہیں ہوتا لہٰذا اس کے جگر گوشوں کو چھلنی کرتے ہوئے ایک لمحے کو رک کر سوچنا بھی گوارا نہیں کیا جاتا۔ کوئی افغانستان اور عراق میں امریکی استعمار کے ہاتھوں مرنے والے لاکھوں افراد کی مائوں کے غم کی کہانی پڑھنے پر آمادہ ہے نہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایندھن بننے والے 10ہزار پاکستانیوں کی مائوں کا نوحہ سننے کو۔ سب ظالم کی آنکھ سے دیکھتے ہیں اور اس کی من مرضی کے عین مطابق مدرز ڈے مناتے ہیں۔
یہ دن ہمارے لیے ہے بھی نہیں اور ہماری مائوں کے شایان شان محض ایک دن ہو بھی نہیں سکتا۔ ہمارے لیے تو سال کے ہر مہینے نہیں، ہر ہفتے اور ہر دن بھی نہیں، ماں باپ کی طرف محبت کی ہر نظر پر ایک مقبول نفل حج کا ثواب لکھ دیا گیا۔ مائوں کا رتبہ اس قدر بلند کردیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کے اظہار کے لیے ’’ ماں کی محبت‘‘ کو ذریعہ بنایا ۔ حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی چاہت 70مائوں کی محبت سے بھی زیادہ ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی صحابی ؓ نے پوچھا: قیامت کب آئے گی؟ فرمایا: اللہ ہی کو معلوم ہے۔ دریافت کیا: کوئی نشانی؟ ارشاد ہوا: جب تم دیکھو، مائوں کو ان کی اپنی اولادیں ذلیل کررہی ہیں تو بس قیامت آنے والی ہے۔
(مفہوم حدیث)
افسوس اولڈ ہوم والوں سے دوستی کا نتیجہ قیامت کی اسی نشانی کی صورت میںاب بہ کثرت دیکھنے کو مل رہا ہے۔ یہ بات کبھی سمجھ میں نہیں آئی جانوروں کی مائیں تک مائیں ہوتی ہیں تو انسانوں کی اولادیں، اولادیں کیوں نہیں بن پاتیں؟ ہم ساری دنیا کے غم، پورے عالم کی پریشانیاں اپنی ماں سے کہہ سکتے ہیں، مگر مائوں کی پریشانیاں سننے کے لیے ہمارے پاس کان، غم سمونے کے لیے سینہ اور دکھ ڈھونے کے لیے کاندھے نہیں ہوتے۔ یہ بچوں کی خوشی کے لیے اپنی خوشیاں وار دیتی ہیں، مگر اولادیں ان کی مسکراہٹ کے لیے اپنی مسرتیں دائو پر نہیں لگاسکتے۔ ہمارے ایک عزیز شادی کے بعد الگ ہوگئے تو ان کی ماں کا ہر لمحہ اذیت میں گزرتا تھا، مگر جب وہ ان سے ملنے آتے تھے تو وہ اپنے آنسو چھپا کر ایسے ملتی تھیں کہ کسی کوگمان تک نہ ہوتا تھا دل پر کیا الم گزر رہے ہیں۔
یہ ٹھیک ہے مائیں جب عمر میں ہوجائیں تو ایسی باتیں بھی کر جاتی ہیں جو شادی شدہ اولاد کو ناگوار گزرتی ہیں، مگر کیا ہے جو اسے برداشت کرلیا جائے۔ ایسی ہزاروں جلی کٹی ماں بھی تو ہمارے بچپن میں سہتی رہی۔ یقین کیجیے جو ایسا کرجائے گا اس کی لغت سے ’’غم‘‘ کا لفظ ہی نکل جائے گا۔ ’’بڑا انسان‘‘ بننے کی ہر کوئی خواہش رکھتا ہے اپنی مائوں کو ستانے والے جتنے بھی بڑے ہوجائیں، کردار کے اعتبار سے پست رہیں گے۔ کوئی ماں کو خفا کرکے کامیابیوں کے خواب بھی نہ دیکھے۔ ایسے لوگوں کے مقدر میں ہر جگہ ٹھوکریں لکھ دی جاتی ہیں۔ کامرانیوں کے لیے ماں کی دعا ضروری ہے۔ ایک آدمی کی ماں کا انتقال ہوگیا۔ 3دن بعد وہ کام پر جارہا تھا کہ غیب سے آواز آئی: ذرا دھیان سے چلنا۔ سوال کیا: کیوں؟ جواب آیا: تمہاری ماں نہیں رہی۔ ہمارے ایک ساتھی شہر کے ان چند لوگوں میں سے ہیں جن کا آج تک کسی ڈاکو، کسی چور، کسی ٹارگٹ کلر سے واسطہ نہیں پڑا حالانکہ وہ رات کو 2بجے گھر جاتے ہیں اور ان کا راستہ جرائم پیشہ لوگوں کے گڑھ سے ہوکر گزرتا ہے۔ ہم جب کبھی راز جاننے کی کوشش کریں،
وہ مسکراتے ہیں اور دھیرے سے کہتے ہیں: ابھی میری ماں زندہ ہے۔ یقینا میری طرح وہ لوگ خوش قسمت ہیں جن کی مائیں زندہ ہیں۔ یہ وہ نعمت ہے جو زندگی میں ایک بار ملتی ہے، اس کو کھو دینے والے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ ان پر دل کھول کر خرچ کرنا چاہیے کہ یہ وہ بینک ہیں، جہاں صرف منافع ہے، خسارہ کوئی نہیں۔ گزشتہ سال میرے ایک دوست کی والدہ کی آنکھ کا آپریشن ہوا۔ انہیں 10ہزار روپے کی ضرورت پڑی۔ اس وقت دوست کے اکائونٹ میں 19ہزار روپے ہی تھے جو وہ چھوٹی سی نوکری سے بڑی بچت کرکے پیسے جمع کرارہے تھے۔ ماں کے مانگے بغیر انہوں نے چیک کیش کرایا اور 10ہزار روپے کی رقم ماں کی ہتھیلی پر لاکر رکھ دی۔ وہ بتاتا ہے اس دن کے بعد تو کمال ہوگیا۔ جتنا خرچ کرتا ہوں، اس سے زیادہ آتاہے۔ ایک مہینہ ایسا نہیں آیا جب رقم کم ہوئی ہو۔ یہ بڑھ رہی ہے اور اکائونٹ بھرتا ہی جارہا ہے، چنانچہ ہمیں بھی اس خوش قسمتی کی قدر کرنی چاہیے ورنہ پھر بدقسمت لوگوں کے اشک بہانے کے لیے کچی قبریں رہ جاتی ہیں، یہ الگ بات ہے پچھتاوے کے یہ آنسو بھی مائوں سے منسوب مٹی جذب کرلیتی ہے شاید مرنے کے بعد بھی مائیں بچوں کے دکھ برداشت نہ کرسکتی ہوں۔ شاید وہ خاک ہوکر بھی اولادوں کے لیے بے چین ہوجاتی ہوں۔ میں نے نظم ’’امبری‘‘ اپنے کمپیوٹر پر لگالی ہے اور نہ جانے کہاں سے آنسو آکر آنکھ میں جمع ہوتے جارہے ہیں۔
Flag Counter