مصر: 80 سال پرانی تاریخ دہرائی جارہی ہے / دو ملکوں کی کہانی
دوخبریں ہیں اور دونوں ہی دھماکے دار۔ ’’28 اپریل 2014ء کو مصرمیں اسلام پسندتحریک الاخوان کے رہنما محمد بدیع سمیت ان کے 529 بعض ذرائع کے مطابق 683، ارکان کو پھانسی کی سزا سنادی گئی۔‘‘ ’’اُدھر برونائی کے سلطان نے اپنے ملک میں شریعتِ اسلامیہ کے نفاذ کا اعلان کردیا ہے۔‘‘ مصر میں الاخوان کے ساتھ جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہورہا ہے، وہ ایک ایسا المیہ ہے جس کی مذمت کے لیے سخت سے سخت الفاظ بھی کم ہیں۔ الاخوان کی جدوجہد جو 9 دہائیوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ شروع سے اب تک مسلسل قربانیوں کی ایک ولولہ انگیز داستان ہے۔ اس تنظیم کے رہنماؤں اور کارکنوں نے اسلام کی خاطر جس ایثار، جوش و جذبے اور استقامت کا مظاہرہ کیا ہے، وہ مسلمانوں کے لیے قابلِ فخر اور اہلِ مغرب کے لیے باعثِ حیرت اور سببِ حسد و اشتعال ہے۔
الاخوان نے ایک انقلابی اسلامی جماعت کے طور پر جنم لیا۔ اس نے مصر سے استعماری طاقتوں کو باہر دھکیلنے اور وہاں مغرب نواز بادشاہت کو گرا نے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ الاخوان کی ان کوششوں کا پھل جمال عبدالناصر نے اُچک لیا۔ اپنی آمریت کے دورمیں اس نے اسی جماعت کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہوئے اسے اس طرح کچلا، لگتا تھا اس تحریک کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ شیخ حسن البنا اور سید قطب کی طرح بڑے بڑے لیڈر وں کو سزائے موت دے دی گئی۔ پھانسی گھاٹ سج گئے۔ شہداء کے قافلے مقتل سے نکل کر قبرستانوں کو آباد کرتے رہے۔
الاخوان نے اس کے بعد اپنی حکمت عملی تبدیل کردی۔ جمہوری سیاست کا حصہ بن کر ملکی آئین اور قوانین کے تحت نہایت پُرامن انداز میں مصروفِ کار رہی۔ اس دوران طاغوتی طاقتیں مصرمیں یکے بعد دیگرے انورسادات اور حسنی مبارک جیسے مہرے آزماتی رہیں۔ وہاں مغربی تہذیب کی آبیاری کی جاتی رہی۔ ڈاڑھی اور عمامہ ایک مذاق بنا دیا گیا۔ اسلامی شعائر کی توہین حکومتی پالیسیوں کا حصہ بن گئی۔ مصر نے اپنا بازارِ حسن کھول لیا۔ وہاں کی فلم انڈسٹری جس کے بانی درحقیقت یہود و نصاریٰ ہی تھے، پوری عرب دنیا میں فحاشی و بے حیائی پھیلانے میں مصروف ہوگئی۔ مصری حکام کی پالیسیاں جہاں اس ملک کو اسلام سے دور لے گئیں، وہاں سیاسی، صنعتی و عسکری لحاظ سے بھی اس کی تباہی کا باعث بنیں۔ جمال عبدالناصر کے دور سے مصر کی اسرائیل سے کھینچاتانی چلتی رہی۔ دونوں ممالک میں جنگیں بھی ہوئیں۔ اس دوران اسرائیل نے ایٹم بم بنالیا تومصر سمیت تمام عرب دنیا اس سے خوف کھانے لگی۔
اپنے اس خوف سے نجات کے لیے مصر ی حکومت کبھی روس اور کبھی امریکا سے امداد لے کراپنا قد و کاٹھ اونچاکرنے کی کوشش کرتی رہی۔ عرب دنیا سے اس کے تعلقات کشیدہ اور اسرائیل سے روابط پختہ ہوتے گئے، تاہم مصری عوام کی بڑی تعداد کٹھ پتلی حکمرانوں کی اس مغرب نوازی اور اسرائیل دوستی سے نالاں تھی۔ انورسادات کو اسی لیے عین قومی جشن کے دن پریڈ کے دوران ایک فوجی افسر نے گولیوں سے اڑا دیا کہ وہ اسرائیل سے معاہد ہ کرنے جارہا تھا۔
مصر میں اندر ہی اندر اسلام پسند الاخوان کے پلیٹ فارم پر جمع ہوتے رہے۔ انہوںنے زندگی کے تمام شعبوں میں ذہن سازی اور رکنیت سازی کا کام کیا۔ تحریک کو لاکھوں کارکن میسر آگئے جس کے نتیجے میں آخر انقلاب آیا۔ حسنی مبارک کو فرار ہونا پڑا۔ الاخوان نے باقاعدہ الیکشن لڑ کر اپنی حکومت بنالی۔ اپنی 86 سالہ جدوجہد کے بعد یہ پہلا موقع تھا مصر میں ایک اسلام پسند جماعت کو حکومت کرنے کا موقع ملا تھا۔ ڈاکٹر محمد مرسی جو مصر کے منتخب صدر بنے، اپنی اعلیٰ تعلیم، فہم و تجربے اور بالغ نظری کی بنا پر مصر کو زوال کی اس کھائی سے نکال کر عروج کی ان بلندیوں پر لے جاسکتے تھے جو اس کا اصل مقام تھا، مگرمغربی طاقتوں کو اسلام کب گوارا ہے؟ انہوںنے مصری فوج کو استعمال کرکے جمہوری حکومت کو گرادیا۔
ادھر 529 کو سزائے موت ہے اور پھانسی گھاٹ تیار ہے۔ اُدھر خود برونائی کا سلطان اسی راستے پر جارہا ہے جہاں الاخوان کے سرفروش گئے تھے۔
صدر مرسی سمیت الاخوان کے سینکڑوں رہنما اور ہزاروں کارکن گرفتار کرلیے گئے۔ گرفتاریوں کا یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ آئے دن نت نئے الزامات کے تحت الاخوان سے معمولی تعلق رکھنے والے افراد کو بھی حراست میں لے لیا جاتا ہے۔ ان کے خلاف سخت ترین جھوٹے مقدمات بنادیے جاتے ہیں۔
اس کی تازہ مثال مصر کی عدالت کا یہ فیصلہ ہے جس نے انصاف کے سر کو جھکادیا ہے۔ جن 529 افراد کو سزا سنائی گئی ہے ان پر الزام ہے کہ وہ ایک سرکاری پولیس اہلکار کے قتل میں ملوث ہیں۔ یہ الزام کس طرح ثابت کیا گیا ہے؟ اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ بالکل وہی معاملہ ہے جیسے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا۔ وہاں امریکی عدالت کون سے ثبوت پیش کرسکی؟ کون سے قانون کی بنیاد پر ایک بے کس و بے آسراخاتون کو 86 سال قید کی دل فگار سزا سنائی گئی؟ نہیں! کوئی ثبو ت نہیں۔ کوئی چشم دید گواہی نہیں۔ بس وہ ایک غیور مسلمان ہے۔
بس یہی ایک بات ہر جرم کے لیے کافی ثبوت ہے۔ ایک میرا نہیں سینے میں دل اور دل میں درد رکھنے والا ہر شخص سربگر یبان ہے کہ ایک آدمی کے قتل کے الزام میں 529 افراد کو سزائے موت… کیا ایسا دنیا میں کہیں سنا گیا ہے؟ نہیں! ایسا انصاف صرف اسلام کا نام لینے والوں ہی کو ملا کرتا ہے، کیونکہ جو شخص آج اسلام کی بالادستی کے لیے کسی بھی سطح پرکام کررہا ہے، اس کا وجود یہود و نصاریٰ اور ان کے ایجنٹوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ وہ تو چاہتے ہیں اسلام کا نام لینے والوں کو اس طرح نیست و نابود کریں کہ ان کی ہڈیوں کا سرمہ تک نہ ملے۔ بادِ سموم ان کے ذرّات کو اُڑا کر اس طرح بکھیر دے۔ پھر کبھی نہ سنا جائے کہ دنیامیں کہیں مسلمان بھی تھے۔ اس کے لیے اگر وہ اسلحے سے کام لے سکتے ہیں تواسلحہ سہی۔ اسلحہ کام نہ کرے تو دوستی کا ہاتھ۔ بغل میں چھری منہ پہ رام رام۔ جی ہاں! اگرباطل قوتوں کا ہدف جمہوریت سے حاصل ہوسکے تو جمہوریت کا خیرمقدم۔ اگر جمہوریت خود گلے پڑجائے تو آمریت کو سلیوٹ۔ اگر اسلام کو دیس نکالا دینے کے لیے قانونی موشگافیاں کام آسکیں تو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے لے کر عدالت عظمیٰ میں بحث جاری۔ اگر ان اداروں سے اُمید یں بر نہ آئیں تو اسمبلی تحلیل، قانونی ادارے سبوتاژ۔ ججز راتوں رات تبدیل۔ سچ تویہ ہے کہ ان دُشمنانِ دین کی اندرونی کیفیت کو نہ میں پوری طرح جان سکتا ہوں نہ آپ۔ ہاں! وہ عالم الغیب ہے جو ان کی رَگ رَگ سے واقف ہے۔ وہی ان کی ذہنیت کو طشت ازبام کرتاہے۔ ہمیں ایسے مواقع پر راہِ عمل بھی بتاتا ہے۔
سنیے! اللہ تعالیٰ سورئہ آلِ عمران کی آیت 118 میں ارشاد فرمارہے ہیں: ’’اے ایمان والو! اپنے سے باہر کے کسی شخص کو رازدار نہ بنائو، یہ لوگ تمہاری بدخواہی میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے۔ ان کی دِلی خواہش یہ ہے کہ تم تکلیف اُٹھائو۔ بغض ان کے منہ سے ظاہر ہوچکا ہے، اور جو کچھ (عداوت) ان کے سینے چھپائے ہوئے ہیں وہ کہیں زیادہ ہے۔ ہم نے پتے کی باتیں تمہیں کھول کھول کر بتادی ہیں، بشرطیکہ تم سمجھ سے کام لو۔‘‘ سورئہ آلِ عمران کی آیت 119 میں ارشاد فرمایا: ’’دیکھو! تم تو ایسے ہو کہ ان سے محبت رکھتے ہو، مگر وہ تم سے محبت نہیں رکھتے، اور تم تو تمام (آسمانی) کتابوں پر ایمان رکھتے ہو، اور (ان کا حال یہ ہے کہ) وہ جب تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم (قرآن پر) ایمان لے آئے، اور جب تنہائی میں جاتے ہیں تو تمہارے خلاف غصے کے مارے اپنی اُنگلیاں چباتے ہیں۔ (ان سے) کہہ دو کہ ’’اپنے غصے میں خود مر رہو۔ اللہ سینوں میں چھپی ہوئی باتیں خوب جانتا ہے۔‘‘ سورئہ آلِ عمران کی آیت 120 میں ارشاد فرمایا: ’’اگر تمہیں کوئی بھلائی مل جائے تو ان کو بُرا لگتا ہے، اور اگر تمہیں کوئی گزند پہنچے تو یہ اس سے خوش ہوتے ہیں۔ اگر تم صبر اور تقویٰ سے کام لو تو ان کی چالیں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گی۔ جو کچھ یہ کررہے ہیں، وہ سب اللہ کے (علم اور قدرت کے) احاطے میں ہے۔‘‘
جی ہاں! ادھر 529 کو سزائے موت ہے اور پھانسی گھاٹ تیار ہے۔ اُدھر خود برونائی کا سلطان اسی راستے پر جارہا ہے جہاں الاخوان کے سرفروش گئے تھے۔ یہود و نصاریٰ اور ان کے ایجنٹ آخر کتنے پھانسی گھاٹ تیار کریں گے؟ جبکہ خود ان کی اجتماعی پھانسی کا دن قریب تر ہوتا جارہا ہے۔