Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 16 تا 22 مئی 2014

ہ رسالہ

10 - 11
رول ماڈل/ برونائی میں اسلامی قوانین کا نفاذ
یہ ذکر ہے برونائی دالسلام کا۔ جہاںان دنوں ایک انتہائی خوش کن خبر زیر بحث ہے۔ اور وہ ہے وہاں پر اسلامی اور شرعی قوانین کا نفاذ۔ آئیے! تفصیل جاننے کے لیے جزائر شرق الہند چلتے ہیں۔ برونائی دارالسلام براعظم ایشیا کے مشرقی جانب، جزائر شرق الہند میں واقع ایک مسلم ملک ہے۔دارالحکومت کا نام ’’بندر سری بگوان‘‘ ہے۔ تیل کی دولت سے مالامال اس ملک کی کل آبادی صرف قریباً 4 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ 70فی صد آبادی مسلمان ہے اور وہ مالے نسل سے تعلق رکھتی ہے۔ 15 فی صد آبادی غیر مسلم چینی عیسائیوں پر مشتمل ہے۔ باقی 15 فی صد میں مقامی قبائلی اور دوسرے غیر مسلم گروپ شامل ہیں۔ یہ دنیا کا امیر ترین ملک شمار ہوتا ہے۔ یہاں شہریوں کو بہترین سہولیاتِ زندگی میسر ہیں۔ مفت صحت اور تعلیم کی سہولت میسر ہے۔ یہ سب ملک میں حاصل ہونے والے تیل اور گیس کے ذخائر کے بدولت ہے۔ اس کے 67سالہ سلطان حسن البولکیہ دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک ہیں۔
برونائی کو سرکاری طور پر دی نیشن آف برونائی، دی ایڈوب آف پیس کہا جاتا ہے۔ جنوبی بحیرہ چین کے ساحل کے علاوہ یہ پوری کی پوری ملائشیا کی ریاست ساراوک سے گھری ہوئی ہے۔ بورنیو کے جزیرے پر واقع یہ واحد خود مختار ریاست ہے جبکہ باقی جزیرہ انڈونیشیا اور ملائیشیا کا حصہ ہے۔برونائی کی کل آبادی جولائی 2012 ء میں 408786 نفوس پر مشتمل تھی۔

برونائی دارالسلام یکم جنوری1984ء کو برطانیہ سے آزاد ہوا۔ 1999ء سے2008ء کے دوران معاشی ترقی کی شرح 56 فیصد رہی جس کی وجہ سے برونائی اب صنعتی ریاست بن گئی ہے۔ اس کی دولت کا بڑا حصہ تیل اور قدرتی گیس کے ذخیروں سے آتا ہے۔ جنوبی ایشیائی ریاستوں میں سنگا پور کے بعد برونائی دارالسلام انسانی ترقی کے اعشاریے میں دوسرے نمبر پر آتا ہے اور اسے ترقی یافتہ اسلامی ملک مانا جاتا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مطابق برونائی دارالسلام میں فی کس قوت خرید دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق لیبیا کے علاوہ برونائی دنیا کا دوسرا ملک ہے جہاں قرضے قومی آمدنی کا صفر فیصد ہیں۔ فوربس کے مطابق برونائی 182 ممالک میں 5واں امیر ترین ملک ہے۔
ان دنوں برونائی دارالسلام ایک بار پھر میڈیا میں زیر بحث ہے۔ اس کی وجہ وہاں پر سرکاری طور پر ملک میں شرعی قوانین کے نفاذ کے اعلان ہے۔ برونائی کے سلطان نے گزشتہ دنوں اپنے ملک کی 70فیصد آبادی کی نمائندگی میں شرعی قوانین کے نفاذ کا اعلان کیا۔ اعلان کے مطابق ان قوانین کا اطلاق صرف مسلمانوں پر ہو گا۔برونائی کے اعلیٰ ترین مذہبی اسکالر مفتی آوانگ عبدالعزیز کا اس آرڈیننس پر تبصرہ تھا کہ ان شرعی قوانین کی بدولت تمام لوگوں کو انصاف مل سکے گا۔
یہ سچ ہے کہ اسلامی قوانین کے نفاذ کا سب سے نمایاں اَثر یہ ہے کہ ان کی برکت سے عوام الناس کو عام انصاف ملتا ہے۔ انصاف امن لاتا ہے اور امن و امان قائم ہو جائے تو افراد اور حکومتوں کی معیشت بہتر ہو جاتی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلامی قوانین اپنے اثرات و ثمرات سے مسلم و غیرمسلم ہر دو کو بہرہ ور کرتے ہیں۔ یہ ایک عظیم الشان حقیقت اور نہایت کارگر حکمت عملی ہے۔ یہ قوانین جہاں پائے جائیں گے اور جو کوئی بھی ان کو اپنائے گا، ان کی حقانیت اور حقیقت ان پر واضح ہوگی۔
اور یہی وہ چیز ہے جو عالم کفر کو کَھلتی ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ اسلام کے نام پر لوگ ان قوانین کی حقانیت سے واقف ہوں اور بالآخر ان کے قائل ہو جائیں۔ یہی وجہ ہے برونائی دارالسلام میں ان قوانین کا اعلان ہوتے ہی معاشی بائیکاٹ اور تجارتی مقاطعے کا طوفان امڈ آیا ہے۔ متعدد بین الاقوامی کاروباری اداروں اور ثقافتی تنظیموں نے ان کے معاشی بائیکاٹ کا اعلان کردیا ہے۔نیز ایک بین الاقوامی گروپ ’’ورجن‘‘ کے سربراہ رچرڈ برینسن نے اعلان کیا کہ آج کے بعد ان کی کمپنی کا کوئی ملازم یا ان کے خاندان کا کوئی فرد برونائی دارالسلام کے بادشاہ کے ہوٹل میں قیام نہیں کرے گا۔ ان کا ادارہ ایسے کسی بھی ادارے کے ساتھ کاروباری تعلق بھی نہیں رکھے گا جس کا حسن البولکیہ سے براہ راست یا بالواسطہ تعلق ہوگا۔
اس کے علاوہ امریکا میں حقوق نسواں کی علمبردار تنظیم فیمینسٹ نے بھی نیو یارک میں حسن البولکیہ ہی کے ہوٹل میں منعقدہ سالانہ عالمی حقوق نسواں ایوارڈز کی تقریب منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔ نیو یارک میں قائم انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا کے لیے نائب ڈائریکٹر فل رابرٹسن نے برونائی میں ان آئینی تبدیلیوں پر تنقید کرتے ہوئے انہیں قابل اور مکمل طور پر ناقابل جواز قرار دیا ۔ تاہم سلطان حسن البولکیہ اس سب کے باوجود اپنے اس عزم اور اعلان پر قائم ہیں اور وہ اسے اپنے ملک کی 70فیصد آبادی کے دلوں کی آواز اور اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے دارالحکومت میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کے فضل سے جیسے ہی اس قانون سازی پر عملدرآمد شروع ہو گا، ہمارا فریضہ ادا ہو جائے گا۔ اسلامی قوانین کے نفاذ اور عملداری کی اس کشمکش میں شرکی قوتیں اپنی تمام تر کوششیں اس اقدام کی حوصلہ شکنی میں صرف کیے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ خیر کی قوتیں چپ سادھے ہوئے ہیں۔ ضرورت ہے کہ اہل اسلام سلطان حسن البولکیہ کے کندھے کے ساتھ کندھا ملائیں۔ اسلام کے نہایت مثالی اور عمومی و دیرپا فوائد کے حامل قوانین کے کامیاب نفاذ میں ان کا ہر ممکن اخلاقی تعاون کریں۔ اگر برونائی دارالسلام ایسے چھوٹے ملک میں ان کا کامیاب تجربہ سامنے آگیا تو اسلام اور اس کے قوانین کی حقانیت دنیا کے سامنے کھل کر آ جائے گی۔ اسلامی مخالف قوتوں کے پروپیگنڈے اپنی موت آپ مر جائیں گے۔ ایک اسلامی رول ماڈل سامنے آکر دیگر اسلامی ممالک کے لیے بھی مثالی بنے گی۔
Flag Counter