Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 16 تا 22 مئی 2014

ہ رسالہ

3 - 11
مدرسہ کہانی
پاکستان بھر کے مدارس میں سالانہ تقریبات کے انعقاس کا موسم چل رہا ہے۔ اداروں سے فارغ التحصیل طلبہ کرام کا اکرام کیا جاتا ہے ۔ انہیں انعامات اور اعزازات سے نوازا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ اعزاز و اکرام حفظ قرآن کریم مکمل کرنے والے حفاظ اور درسِ نظامی مکمل کرکے فارغ التحصیل ہونے والے علماء کرام کا کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد تخصص فی الفقہ یا تخصص فی الافتاء کے متخصصفین یعنی مفتیانِ گرامی قدر کا اکرام کیا جاتا ہے۔ بنات کے جامعات یعنی طالبات کے جامعات میں 4 سالہ یا 6 سالہ عالمہ فاضلہ کورس مکمل کرنے والی طالبات کی ردا پوشی کی جاتی ہے۔ تمام مدارس و جامعات طلبہ کو انعام میں کپڑے، نقد انعام اور اتنی ساری کتابیں دیتے ہیں کہ ان کا سنبھالنا اور ایک آدمی کا انہیں اٹھانا مشکل ہوجاتا ہے۔ تقریب کے موقع پر عموماً دعوتِ عام ہوتی ہے۔ تمام طلبہ کے ساتھ ساتھ آنے والے تمام مہمانوں کا کھانا بھی ہوتا ہے۔ اساتذہ کرام کا بھی اکرام کیا جاتا ہے۔ مدارس و جامعات کے مؤظفین کو بھی حسنِ کارکردگی پر انعامات دیے جاتے ہیں۔ جشنِ بہاراں کا سماں ہوتا ہے۔
اس موقع پر ملک کے مشہور و معروف خطباء ملک بھر میں ہونے والی ان تقاریب کے لیے دور دراز کے اسفار کرتے ہیں۔ حمد و نعت خواں حضرات بطورِ خاص بلائے جاتے ہیں۔ قدیم طلبہ کو بھی خاص طور پر مدعو کیا جاتا ہے۔ تقریب کی تیاری کوئی مہینہ بھر پہلے ہی شروع کردی جاتی ہے۔

تقاریب میں علماء و طلبہ عموماً سفید کپڑے، عمامہ، پگڑی اور کالی واسکٹ زیب تن فرماتے ہیں۔ حفاظ، علماء اور مفتیان کرام کی باقاعدہ دستار بندی کی جاتی ہے۔ انہیں دستارِ فضیلت پہنائی اور پگڑی ان کے سروں پر سجائی جاتی ہے۔ حفاظ اپنا آخری سبق مہمانِ خصوصی کو سناتے ہیں جبکہ علماء کو اس تقریب میں کہ جس کا نام ہی تقریب ختمِ بخاری شریف ہوتا ہے، بخاری شریف کی آخری حدیث شریف کا درس پڑھایا جاتا ہے ۔ وہ یہ آخری حدیث شریف مکمل کرکے عالم کی مسند پر فائز ہوجاتے ہیں۔ طلبہ و طالبات کو ان کی آئندہ عملی زندگی کے حوالے سے نصائح کی جاتی ہیں۔ ان کو عاجزی و انکساری کا درس دیا جاتا ہے۔
انہیں بتایا جاتا ہے کہ ان کی آیندہ ذمہ داریاں کیا ہوں گی۔ آخر میں دعا ہوتی ہے مدارس کے لیے، معاونین کے لیے، اہلِ محلہ اور پورے ملک اور پوری دنیا اور بالخصوص دنیا بھر کے مظلوم و مقہور مسلمانوں کے لیے۔ ان تقاریب میں مدارس و جامعات کی سالانہ کارکردگی بھی تفصیل سے تحریری و تقریری طور پر پیش کی جاتی ہے۔ طلبہ و طالبات الگ الگ مجمعوں میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار حمد و نعت، تلاوت و تقاریر کے ذریعے بھی کرتے ہیں۔ یہ ایک روح پرور اجتماع ہوتا ہے۔ اس کا آغاز تلاوتِ کلام پاک سے ہوتا ہے ۔ اس کا اختتام آنسوئوں سے دھلی ہوئی دعائوں سے ہوتا ہے۔ تقاریب بہت منظم ہوتی ہیں۔ پوری تقریب کی لسٹ اور مہمانوں کی ترتیب، ان کے موضوعات اور وقت کی تقسیم پہلے سے کرلی جاتی ہے۔ مدارس و جامعات میں خصوصی صفائیاں کرائی جاتی ہیں۔ کلاسز، ہوسٹلز، مسجد و دارالقرآن اور دارالحدیث و دارالافتاء کی چمک دمک دیکھنے لائق ہوتی ہے ۔
پھر وفاق المدارس کے امتحانات میں طلبہ مصروف ہوجاتے ہیں۔ ہر سال 50 ہزار سے زائد طلبہ و طالبات وفاق کا حفظ کا اور 2 لاکھ کے قریب طلبہ و طالبات درسِ نظامی، تخصص اور تجوید کا امتحان دیتے ہیں۔ ہر سال صرف پاکستان میں صرف علمائے دیو بند کے جامعات سے 15 ہزار طلبہ و طالبات دورۂ حدیث شریف کا امتحان دے کر سندِ فراغت حاصل کرکے عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں۔ مدارس میں نماز کی باجماعت پابندی کروائی جاتی ہے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت پر زور دیا جاتا ہے۔ پیار، محبت اور اخوت و مساوات کا درس دیا جاتا ہے۔ تحریر و تقریر کی مشق کروائی جاتی ہے۔ خوش خطی اور تجوید پر توجہ دی جاتی ہے۔ والدین اور اساتذہ کا احترام اور ساتھیوں کا اکرام سکھایا جاتا ہے ۔ وفاق کے اور مدارس کے اپنے امتحانات کے بعد شعبان المعظم کی ابتداء میں تعلیمی سال اختتام کو پہنچتا ہے ۔ درسِ نظامی کی ڈھائی ماہ کی تعطیلات کا آغاز ہوجاتا ہے۔ مدارس و جامعات کے مہتممین اور اساتذہ اور جامعات کی فضا اداس ہوجاتی ہے اور طلبہ اپنے گھر چلے جاتے ہیں۔ دوبارہ بہار 10 شوال کو آتی ہے۔
Flag Counter