Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 16 تا 22 مئی 2014

ہ رسالہ

5 - 11
تحفظِ پاکستان بل
نائن الیون کے بعد وطن عزیز جس طرح بدامنی کی لپیٹ میں آگیا ہے، اس کی نظیر شاید ہی مل سکے۔ بم دھماکے، خودکش حملے، اغوا برائے تاوان کی وارداتیں رُکنے کانام نہیں لے رہیں۔ زندہ لوگ لاپتہ ہوجاتے ہیں۔ پھر بعض کی لاشیں مل جاتی ہیں۔ بعض کی وہ بھی نہیں ملتیں۔ مسجدیں محفوظ ہیں، نہ اسکول و کالج، بازاربچے ہوئے ہیں نہ کھیل کے میدان۔ کراچی ہو یا قبائلی علاقہ جات، خیبرپختونخوا ہو یا بلوچستان ہر جگہ آگ لگی ہوئی ہے۔ ایسے میں صدرپاکستان نے اکتوبر 2013ء میں تحفظِ پاکستان آرڈیننس جاری کیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور اپوزیشن نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا اس آرڈیننس کے ذریعے بدامنی کا جن قابو ہونے کے بجائے مزید بے قابو ہوجائے گا۔ حکومت نے اس آرڈیننس میں ترمیم کا آرڈی ننس پیش کیا۔ پھر 7 اپریل 2014ء کو دونوں آرڈیننس کو ملا کرقومی اسمبلی سے ایک بل پاس کیا گیا جس کو تحفظ پاکستان بل 2014کا نام دیا گیا۔ یہی بل اب سینیٹ میں پیش کیے جانے کے بعد سینیٹ کی متعلقہ کمیٹی میں زیرغورہے۔
بل پر ایک نظر: بظاہر متاثرہ علاقوں کے لیے بنائے گئے اس بل کااطلاق پورے پاکستان پر کیا گیا ہے، البتہ وفاقی حکومت کو یہ اجازت دی گئی ہے وہ ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے کسی مخصوص علاقے یا علاقوں تک اس کے اطلاق کو محدود اور ایسے ہی نوٹیفکیشن

کے ذریعے کسی مخصوص علاقے یا علاقوں کو اس کے دائرہ نفاذ سے نکال سکتی ہے۔ اس بل کی بہت سی شقیں بنیادی انسانی حقوق اور خود اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین سے متصادم ہیں۔ سب سے پہلے ملاحظہ ہو دشمن کی تعریف۔ وہ شخص جس کے پاس پاکستانی شہریت کی دستاویز نہ ہو یا جسے اس کی شہریت سے محروم کیا گیا ہو، اس پر پاکستان کے خلاف جنگ اور بغاوت میں ملوث ہونے یا اس کی سرزمین کو منفی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے کا شبہ ہو،وہ اجنبی دشمن کہلاتا ہے۔
دنیا بھرمیں کہیں بھی دشمن کی یہ تعریف نہیں پائی جاتی۔ ہر جگہ ایسے فردکو دشمن سمجھنے کے بجائے عدالت کے سپرد کیاجاتاہے تاکہ اس شخص کو اپنے خلاف شکایت کاجواب دینے کا پورا موقع مل سکے۔ یہ تعریف خود آئین پاکستان کی دفعہ 4 سے متصادم ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی دفعہ4 کے مطابق: ’’قانون کے مطابق سلوک کرنے کے بارے میں افراد کاحق: (1) ہر شہری کا خواہ کہیں بھی ہو، کسی بھی شخص کا جو فی الوقت پاکستان میں ہو، یہ ناقابل انتقال حق ہے کہ اسے قانون کا تحفظ حاصل ہو، اس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیاجائے۔ (2) خصوصاً (الف) کوئی ایسی کارروائی نہ کی جائے جو کسی شخص کی آزادی، شہرت، املاک یا جان کے لیے مضر ہو۔ سوائے اس کے جبکہ قانون اس کی اجازت دے۔ (ب)کسی شخص کوکسی ایسے کام کرنے سے منع نہیں کیا جائے گا،نہ مزاحمت کی جائے گی جو قانوناً ممنوع نہ ہو، اور (ج) کسی شخص کو کوئی ایسا کام کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا جس کا کرنا اس کے لیے قانوناً ضروری نہ ہو۔
بل کی شق (3) کی ذیلی شق میں کہا گیا ہے کوئی بھی پولیس آفیسر، مسلح افواج یا قانون نافذ کرنے والے سول اداروں کا رکن، جو کہ کسی بھی علاقے میں ذمہ داری نبھا رہا ہو، اگر وہ شیڈول جرم کے وقوع پذیر ہونے کا معقول خطرہ محسوس کرے تو مناسب وارننگ کے بعد وہ ضروری طاقت کا استعمال کر سکتا ہے۔ اسی شق کی ذیلی شق 2-A میں کہا گیا ہے اگر ضروری طاقت استعمال کے نتیجے میں اُس شخص کی موت واقع ہو جائے یا وہ شدید زخمی ہو تو یہ کارروائی قانونی تصور ہوگی، تاہم یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ ایسے تمام کیسز کے لیے، جن میں اموات واقع ہوں یا متاثرہ شخص شدید زخمی ہو، متعلقہ قانون نافذ کرنے والا ادارہ ایک ادارتی تفتیشی کمیٹی بنائے گا جو کہ اس نوعیت کے واقعات کا جائزہ لے گا۔ہم سمجھتے ہیں کہ جب مارنے کے اس اقدام کو قانونی قرار دے دیا گیا۔ پھر اس کا جائزہ لینا چہ معنی دارد، پھرجائزہ بھی وہی لے جس نے قتل کیاہو، خودہی مدعی خودہی منصف۔ اس طرح سے عدالتوں کا مقصدختم ہوجاتاہے اور انصاف کے معنی بدل جاتے ہیں۔ اگرآپ کو کسی کے بارے میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کا خدشہ ہے یا یقین ہے تو اس کے خلاف مقدمات کو عدالتوں میں لے جائیں۔ عدالتوں کے سامنے اس کے خلاف لگائے گئے الزامات ثابت کریں۔

اسی شق 2 کی ذیلی شق 2-B میں کہا گیا ہے کوئی پولیس آفیسر یا مسلح افواج یا سول اداروں کا ممبر جو کہ سول حکام کے تحت فرائض سرانجام دے رہا ہو، کسی بھی ایسے شخص کو بغیر وارنٹ گرفتار کر سکتا ہے جس کے بارے میں شبہ ہو یا قابل اعتماد معلومات ہوں کہ اس نے شیڈول جرم کا ارتکاب کیا ہے یا یہ کہ وہ کوئی جرم یا ایکٹ کرنے والا تھا اور، اسی شق 2 کی ذیلی شق C میں کہا گیا ہے شیڈول جرم کے ارتکاب کے حوالے سے وہ آفیسر بغیر وارنٹ کے کسی بھی گھر میں داخل ہو سکتا اور تلاشی لے سکتا ہے۔ کسی کو گرفتار کر سکتا ہے یا کسی ایسی پراپرٹی، ہتھیار، آتشیں اسلحہ یا دیگر اشیا کو اپنے قبضے میں لے سکتا ہے جو جرم میں استعمال ہو ا ہو یا استعمال ہونے کا خدشہ ہو۔ اس طرح سے صرف معلومات کی بنیاد پر آپ ایک شخص سے اس کو ملنے والے آئینی حقوق چھیننے جارہے ہیں۔ معلومات غلط بھی ہو سکتی ہیں۔ اگر غلط معلومات کی بنیاد پر کسی کو مار دیاجاتاہے یا اس کو شدید زخمی کر دیا جاتا ہے تو اس کی ذمہ داری کس پر ہو گی؟اسی طرح بغیر وارنٹ کے کسی جگہ میں داخل ہونا دراصل وہاں پر رہنے والے مرد و خواتین، بوڑھے اور بچوں کے ان بنیادی حقوق کو سلب کرنا ہے جو آئین نے اُن کو عطا کیے ہیں۔
قانون کی شق 9 اور ذیلی شقیں1,2,-A,B اور 3 مقدمات کی انکوائریز، تفتیش اور کارروائی سے متعلق ہیں، جن میں کہا گیا ہے حکومت،جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم،مسلح افواج،قانون نافذ کرنے والے سول ادارے اپنے افراد کے تحفظ کی خاطر
یا قید کیے گئے ملزم یا حراست میں رکھے گئے افراد کے تحفظ کی خاطر یا کسی اور وجہ سے متذکرہ جگہ یا بیگار کیمپوں یا حراستی مراکز سے متعلق معلومات دینے کے پابند نہ ہوں گے۔ مندرجہ بالا شقیں اور ذیلی شقیں لانے کا مقصدس پریم کورٹ میں لاپتہ افراد کے بارے میں کیس کو غیرموثرکرنا اور اس طرح کے تمام معاملات کو اعلیٰ عدالتوں سے چھپانا ہے، چونکہ پہلے سے عدالتیں موجود ہیں اور دہشت گردی کے مقدمات سننے کے لیے خصوصی عدالتیں بھی موجود ہیں، لہٰذا مذکورہ ترمیم کا مقصد سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ اپنے من پسند ججوں کا تقرر کروا کر اُن سے من پسند فیصلے لیے جائیں۔ پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو لامحدود اختیارات سے نوازنا تاکہ وہ جس شہری کے ساتھ جو سلوک کریں ان کو کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ اس قانون سے لاپتہ افراد کا مسئلہ مزید بڑھے گا۔ بغیر ثبوت کے بے گناہ لوگوں کو اغوا کرنے، طویل عرصے تک بغیر کسی الزام کے حراست میں رکھنے، تشدد کرنے اور لوگوں کو جانوں سے محروم کرنے کو قانونی جواز مہیا ہوجائے گا۔ایک بات یہ بھی کہ ملک میں پہلے سے انسداد دہشت گردی کا ایکٹ موجودہے دوسری طرف پی پی او بھی آگیا۔ یہ وضاحت موجودنہیں کہ کیا پی پی او مذکورہ ایکٹ کی جگہ لے رہا ہے؟ یہ دونوں ساتھ ساتھ چلیں گے؟ اگردونوں ساتھ ساتھ چلیں گے تو کیسے؟ یہ بھی ایک کنفیوژن ہے۔ ہم نے صرف چند نکات کا ذکر کیا ہے ورنہ یہ نیا قانون ہر لحاظ سے ایک کالا قانون ہے۔ نہیں کہا جاسکتا کہ اس طرح کے قانون سازی سے سول مارشل لا نافذ کرنے کی کوشش ہورہی ہے یا حقیقی مارشل لا کے لیے باامرمجبوری راہ ہموار ہو رہی ہے۔
Flag Counter