Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 16 تا 22 مئی 2014

ہ رسالہ

1 - 11
شہادتوں کا سفر / ان کا جرم کیا ہے؟
’’علاء الاسوانی‘‘ ہم عصر مصری ادب کا سب سے بڑا نام ہے۔ ان کی تحریروں کے ترجمے اَن گنت زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ مصر کی سیاسی اور سماجی حقیقتوں پر ان کی گرفت بہت مضبوط ہے۔ ان کا ایک مشہور ناول ہے۔ اس میں’’ فریڈ رک‘‘ نامی ایک جرمن انجینئرمصر کے طول و عرض میں سفر کرتا ہے۔ وہ شہر میں مصریوں کے ساتھ دوستیاں لگاتا ہے۔ معصوم بچے کے تجسس سے ہر ایک سے سوالات پوچھتا ہے۔ اپنے دورے کے آخر میں وہ یہ رائے دیتا ہے: ’’اس نے دنیا کے بے شمار ملک دیکھے۔ اسے مصر کے سوا کوئی ایسا ملک نہیں ملا۔ جہاں خداداد صلاحیتوں کے مالک لوگ اتنی تعداد میں رہتے ہوں۔‘‘ وہ بڑے تاسف سے کہتا ہے: ’’خدا جانے اتنے اعلیٰ جوہر رکھنے والے مصریوں کو اتنی مشکلات کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟‘‘.
آپ مصر کی تاریخ کے جھروکے میں جھانکیے! مصریوں نے پہیہ ایجاد کیا جس کی گردش پر اب دنیا کی تمام ترقی سفر کر رہی ہے۔ انہوں نے بادل لانے اور برسانے والی ٹیکنالوجی کو قبل مسیح میں ہی دریافت کر لیا تھا۔ انہوں نے دریائے نیل کے پانیوں سے بکثرت اناج اُگایا اور ساری ریاعا خوشحال ہو گئی۔ دریائوں کی موجوں کا رخ موڑا۔ سارا مصر لہلہا اٹھا۔ اسکندریہ میں دنیا کی سب سے پرانی دانش گاہ بنائی جہاں فلسفی، دانشور، سائنس دان تعلیم حاصل کرنے دور دراز ملکوں سے آتے تھے۔ ستارہ شناسی کے لیے دور بینیں ایجاد کیں۔ کائنات کی وسعتوں کا پہلی بار احاطہ کیا گیا۔

نعشوں کو حنوط کرنے کے لیے کیمیکل ایجاد ہوئے۔ احرام کی تعمیر کے لیے سینکڑوں ٹن وزنی پتھروں کو بلندی تک لے جانے کے لیے ٹیکنالوجی وجود میں آئی۔ ہزاروں سال قبل ترقی کے بام عروج تک پرواز مصریوں کے سوا کوئی دوسری قوم نہ کر پائی۔
یہی مصربیسویں صد تک آتے آتے زوال کی اتھاہ گہرائیوں کو چھونے لگا۔ 1882ء میں برطانیہ نے مصر پر قبضہ کر لیا۔ 26 جنوری 1952ء تک یہ ملک انگریزوں کی جاگیر رہا۔ اخوان المسلمون نے آزادی، دینی اقدار کے فروغ اور بڑھتی ہوئی یورپی بے حیائی کے تدارک کے لیے تحریکیں چلائیں۔ بدقسمتی سے اس کے بڑے لیڈروں کو قید و بند اور سزائے موت کے مراحل سے گزرنا پڑا۔ جمال عبدالناصر، انور سادت اور حسنی مبارک جیسے آمروں نے مصر میں اسلام پسندوں کے لیے سانس لینا دو بھرکیے رکھا۔ مصر امریکا اور اسرائیل کا پٹھو بنا دیا گیا۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار عام انتخابات 30 جنوری 2012ء کو ہوئے۔ ان میں ڈاکٹر محمد مرسی نے ایک کروڑ 32 لاکھ 30 ہزار 131 ووٹ حاصل کیے۔ یوں اخوان المسلمون پہلی بار مصر کے اقتدار تک جاپہنچی۔
ڈاکٹر مرسی نے ملک میں اسلامی اصلاحات شروع کیں۔ فلسطین پر اسرائیلی مظالم کے لیے آواز اٹھائی۔ حماس کی پشت پناہی کی۔ غزہ کا بارڈر کھولا۔ بھوکے فلسطینیوں کے لیے اَناج مہیاکیا۔ بیماروں کا مصری ہسپتالوں میں مفت علاج کروایا۔ اسلامی ملکوں کے دورے کیے۔ اسلامی ممالک کے ایک بڑے اتحاد کے لیے نہایت دردمندی سے کام شروع کردیا۔ اندرون ملک شراب پر پابندی لگائی۔ باررومز، فحش فلموں اور بے لگام تھیٹر بند کروا دیے۔ بگڑی مصری معیشت کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے۔ یورپ اور امریکا سے سامان تعیش کی درآمد رکوائی۔
ملٹی نیشنل کمپنیوں اور این جی اوز کے مصر میں گڑے دانت باہر نکالے۔ یورپ کی ننگی معاشرت کے لیے مصر پر دروازے بند کرنا شروع کردیے۔ اخوان المسلمون نے ملک کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے شبانہ روز کاوشیں جاری رکھیں۔ مصر میں فوج کو سول حکومت کے ماتحت کرنے کے لیے قوانین منظور ہوئے۔ یورپی قوانین کے غلاظت میں لتھڑی ہوئی عدلیہ کے لیے اسلامی فقہ کا مطالعہ لازم قرار دیا۔ غرض ایک برس کی قلیل مدت میں نہایت بدحال معیشت والا مصر دنیاوی اور دنیوی ترقی کی شاہراہ پر منزلیں مارنے لگا۔


٭ 28 اپریل کو اخوان المسلمون کے سربراہ محمد بدیع سمیت 683 حامیوں کو سزائے موت سنادی گئی۔ ٭ جنرل سیسی نے اقتدار ملنے کے بعد اخوان المسلمون کا مکمل صفایا کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اخوان المسلمون کا مکمل صفایا جمال عبدالناصر انور سادات اور حسنی مبارک نہیں کر پائے، جنرل سیسی بھی اس مشن میں مکمل طور پر ناکام ہوگا۔ ٭ جن رگوں میں، جن نسوں میں، جن شریانوں میں ایمان لہو بن کر دوڑتا ہو ان کو پھانسی گھاٹوں پہ لٹکے پھندے مار نہیں سکتے، بلکہ سولیاں انہیں نئی زندگی دیتی ہیں۔ ٭

3جولائی 2013ء کو مصری فوج نے حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ جنرل سیسی نے یہ اقدام امریکا اور اسرائیل کے ایما پر کیا۔ اس کے لیے گراونڈ تیار کیا گیا۔ امریکی سفیر این پیٹرسن مسلسل سر گرم رہی۔ چند ہزار لادین مصریوں کو التحریر اسکوائر میں جمع کیا گیا۔ یوں پہلی منتخب حکومت کو اٹھا کر کوڑے دان میں پھینک دیا گیا۔ مصرمیں کشیدگی ابل پڑی۔ اخوان المسلمون کے نہتے کارکنوں پر ٹینک چڑھا دیے گئے۔ ان پر سیدھی گولیاں ماری گئیں۔ رابعہ العدویہ کی مسجدکے گرد لاشوں کے انبار لگادیے گئے۔ ہسپتالوں میں زخمی مظاہرین کو قتل کیا گیا۔ اخوان المسلمون کے 5 ہزار سے زائد کارکن شہید ہوگئے۔ 18 ہزار جیلوں میں بند کردیے گئے۔ چند ماہ قبل مصر 30 بلین ڈالر کا مقروض تھا۔ اب یہ قرضے 40 بلین ڈالر تک جا پہنچے ہیں۔ سعودی عرب اور قطر کو 6 بلین ڈالرز کے بانڈ بیچے گئے، جبکہ 4 بلین ڈالرز کے بانڈز ترکی اور لیبیا کو فروخت کیے گئے۔ زرمبادلہ کے ذخائر اس کے باوجود مسلسل گرتے گئے۔ ڈاکٹر مرسی کی حکومت میں یہ 32 ارب ڈالرز تھے جو اب آدھے ہو کر 16 ارب ڈالر تک آگئے ہیں۔
مصری معیشت جو اخوان المسلمون کی حکومت میں آکاس بیلوں سے نجات پا کر پھل پھول رہی تھی۔ ہرے ہرے پات اور شریں ثمر پیدا کرنا شروع ہو گئی تھی۔ اب اجاڑ ٹنڈ منڈ اور سوکھ اور سوکھے کا شکار ہو چکی ہے۔ افراط زر 3فیصد سے بڑھ کر 13سے 18 فیصد ہو گیا ہے۔ امریکا نے جنرل سیسی سے خوش ہو کر مصر کو 1.3 بلین ڈالر فوجی امداد دی ہے۔ اقتصادی شعبے میں امریکی 250 ملین ڈالر دے رہے ہیں۔ اس کے باوجود 8 کروڑ کی آبادی میں سے 4 کروڑ سے زائد مصری 2 ڈالر فی کس آمدنی کی وجہ سے خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔ اشیائے خورد نوش کی قیمتوں میں 3 گنا اضافہ ہوا ہے۔ ٹرانسپورٹ کرائے 2 گنا بڑھ گئے ہیں۔ ڈاکٹر مرسی نے مصری ہسپتالوں میں نہایت سستے علاج اور مفت ادویات کی اسکیم متعارف کروائی تھی۔ اب یہ واپس لے لی گئی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق اب 70 فیصد مصری اسپتالوں میں شدید بدنظمی کی وجہ سے ڈاکٹروں کی بروقت دستیابی اور دوائوں کا حصول نا ممکن ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر مرسی نے نہایت قلیل فیس پر اسکولوں کے دروازے تمام غریب غربا کے بچوں کے لیے کھول دیے تھے۔ اب 38 فیصد طالب علم فیسوں میں 41 فیصد اضافے کے بعد اسکول چھوڑ چکے ہیں۔ ان کے والدین ان کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ پچھلی حکومت نے مصر میں اسٹریٹ کرائمز پر فوری توجہ دی۔ پولیس کو فعال بنایا۔ اخوان المسلمون کے کارکنوں نے گلی، محلے، قصبے اور شہر کی سطح پر جرائم پر کڑی نظر رکھی۔ ایک سال کی مدت میں مصر میں ڈاکہ زنی، چوری اور لوٹ مار کی شرح میں 72 فیصد کمی آئی۔ اسلامی بھائی چارے کی خوش منظر فضا میں قتلوں میں 64 فیصد کمی ہوگئی۔ ریپ کے واقعات میں 67 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ نئی حکومت آنے سے پہلے ہی التحریر اسکوائر میں سینکڑوں عورتیں بدمعاش مغربی رنگ میں رنگے عیاشیوں کے ہاتھوں لٹ گئیں۔ چوری ڈکیتی پچھلے 10 ماہ میں 34 فیصد بڑھ چکی ہے۔ قتل کی وارداتیں 28 فیصد اوپر چلی گئیںہیں۔ پبلک پراپرٹی اور دکانوں پر لوٹ مار کے واقعات 22 فیصد تک بڑھ گئے ہیں۔ بھوک، لاچاری اور بے راہروی مصر میں اپنا ننگا ناچ دکھا رہی ہے۔ اخوان المسلمون کے کارکنوں کا 80 فیصد سے زائد کاروبار بند کیا جاچکا ہے۔ انہیں فاقوں مارنے کے لیے ہر روز نئی اسکیمیں متعارف کروائی جارہی ہیں۔ شراب خانوں، طوائفوں کے اڈوں، ننگاناچ دکھانے والے تھیڑوں اور فحش فلمیں عام کرنے والے سینمائوں کو 100 فیصد تک کھول دیا گیا ہے۔ مسجدوں میں داخلہ محدود کردیا گیا ہے۔ خفیہ ایجنسیاں ماتھے کے ہر محراب میں کسی سازش کا نشان پانے کے لیے ہر دم چوکس رہتی ہیں۔
مصری عدلیہ کا بھیانک چہرہ اس سارے پس منظر میں ایک نہایت ڈراونے خواب کی تعبیر کی طرح سامنے آگیا ہے۔ اس نے اپنا قانون ’’Jedburgh Justice‘‘ کو قرار دیا ہے۔ ’’جیڈ برگ‘‘ ایک بدنام زمانہ جج تھا جو کسی بھی ملزم کو پہلے پھانسی دیتا پھر اس پر عائد جرم کی سماعت کرتا۔ 24 اپریل کو ایسے ہی ایک جج نے چند ساعتوں میں اخوان المسلمون کے 529 حامیوں کو سزائے موت سنا دی۔ الزام یہ تھا انہوں نے ایک پولیس افسر کو قتل کیا۔ 26 اپریل کو ڈاکٹر مرسی کے 11 حامیوں کو 88 سال قید با مشقت کی سزاسنائی گئی۔ 28 اپریل کو اخوان المسلمون کے سربراہ محمد بدیع سمیت 683 حامیوں کو سزائے موت سنادی گئی۔ ان پر مظاہرے اورسیکورٹی فورسز کے ساتھ لڑائی کرنے کے الزامات تھے۔ انصاف کی مسند پر بیٹھ کر ایسے فیصلے گھنٹے بھر کی سماعت پر سنا دینا ان ججوں کو تاریخ میں ایک انمٹ مقام دیا گیا ہے۔
یہ اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی ہیں جنہوں نے عدل و انصاف کی بجاآوری میں گزارے ایک گھنٹے کو 80 سال کی عبادت سے افضل قرار دیا۔ ایسے شرمناک فیصلے ایک اسلامی ملک کی عدالتوں سے نکل کر دنیا بھر میں باز گشت پیدا کررہے ہیں۔ جج یہ ثابت کرتے ہیں کہ اسلام کے باطنی نور سے محروم یہ تیرہ وتار کردار کے مالک لوگ ہیں۔ جس مغرب کے بے نور سویروں کی یہ پرستش کرتے ہیں وہ بھی اپنی خاکستر میں ایسی چنگاری دیکھ کر انگشت بدنداں ہے۔ برسلز میں یورپی یونین کے نمایندے نے اسے A glaring travesty of justice قانون کا شرمناک مذاق قرار دیا ہے۔ جان کیری جیسا متعصب امریکی بھی اسے عقل و فہم سے بلند کوئی شے کہہ رہا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائیٹس واچ نے اسے قانون وانصاف کے ساتھ ایک بے ہودہ کھلوڑا قرار دیا ہے۔ سب سے دلچسپ تبصرہ واشنگٹن پوسٹ نے کیا۔ اس نے ہیڈلائن لگائی: ’’مصری بندروں کے ہاتھ میں قانون کا استرا۔‘‘
دوسری طرف جنرل سیسی اس ماہ کی 26، 27 تاریخ کو ہونے والے نام نہاد انتخابات کی مہم چلانے کے لیے اپنی کیمپین گاہ سے نکل آیا ہے۔ اس نے اقتدار ملنے کے بعد اخوان المسلمون کا مکمل صفایا کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ امریکا اور اسرائیل نے اس کی حمایت کرنے اور جتوانے کے لیے سازشیں شروع کردی ہیں۔ مصر میں اخوان المسلمون، فلسطین میں حماس اور الجزائر میں اسلامک فرنٹ کی کہانیاں ایک جیسی ہیں، جب بھی اسلام کے نام پر اقتدار میں آئے انہیں مغرب نواز طاقتوں نے چلتا کر دیا۔ بڑے اسلامی ملک لاتعلقی کی بکل مارے سکون سے بیٹھے رہے۔ اسلامی دنیا کے بادشاہ، صدر، وزیراعظم، اور او آئی سی عرب لیگ سب کا کردار ایمان کے گداز، ہمدردی کی گرم جوشی سے محروم رہا۔ جنرل سیسی جیسے غداروں نے اقتدار پر نقب لگائی۔ اس کے خلاف مسلم دنیا نے کوئی اقدام نہ اٹھایا۔
اخوان المسلمون کا مکمل صفایا جمال عبدالناصر انور سادات اور حسنی مبارک نہیں کر پائے، جنرل سیسی بھی اس مشن میں مکمل طور پر ناکام ہوگا۔ حق باطل کے ہاتھوں کبھی نہیں مٹ سکتا۔ اندھیرا کتنا بھی گہرا کیوں نہ ہو سورج آخر نکل ہی آتا ہے۔ ظلم کتنا بھی حد سے بڑھ جائے وہ مظلوموں کی آہوں کو ہرش ہلا دینے سے روک نہیں سکتا۔ جنرل سیسی اس کے سدھائے ہوئے جج، اس کی خفیہ ایجنسیاں امریکا اور اسرائیل اخوان المسلمون کو جتنا دبائیں گے وہ اتنا ہی اُبھرے گی۔ جن رگوں میں، جن نسوں میں، جن شریانوں میں ایمان لہو بن کر دوڑتا ہو ان کو پھانسی گھاٹوں پہ لٹکے پھندے مار نہیں سکتے، بلکہ سولیاں انہیں نئی زندگی دیتی ہیں، بے رحم جلادوںکو تاریخ میں گمنامی ملتی ہے، شہیدوں کے لہو سے روشن مستقبل کاشت ہوتے ہیں۔ حسن البنا کا قافلہ بگولوں کی زد میں سہی، ریت کا یہ طوفان بیٹھ جائے گا، قافلہ دوبارہ منزل کی طرف روانہ ہو جائے گا۔
Flag Counter