Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۳۱ھ - جون ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

8 - 13
گرمیوں کی چھٹیاں … والدین کی ذمہ داریاں !
گرمیوں کی چھٹیاں … والدین کی ذمہ داریاں


”حضرت ابووائل روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود  ہمیں ہر جمعرات کے دن نصیحت فرمایا کرتے تھے، ان سے ایک صاحب نے عرض کیا: اے ابوعبد الرحمن(عبد اللہ بن مسعود کی کنیت) آپ ہمیں ہر روزبیان فرمایا کریں، اس پر ابن مسعود نے جواب دیا کہ مجھے اس سے کوئی مانع نہیں کہ میں تمہیں روزانہ بیان کروں مگر مجھے اندیشہ ہے کہ میری وجہ سے تمہیں مشقت ہوگی اور پھر فرمایا کہ نبی کریم ا نے ہمارا خیال رکھتے ہوئے نصیحت کے لئے چند دن خاص فرمالئے تھے کہ کہیں ہم پر مشقت نہ ہو“۔
اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح مسلم کی جلد دوم ص:۳۷۷ پر نقل کیا ہے، اس حدیث سے ایک فطری اصول کی نشاندہی ہوگئی کہ وعظ ونصیحت ہو یا دیگر مشاغل، ان میں وقفہ ایک طبعی اور فطری امر ہے، جو روزانہ ،ہفتہ وار اور سالانہ بنیادوں پرہونا چاہئے ، طبائع نئے سرے سے چاق وچوبند ہوکر نیا تعلیمی سال شروع کرتی ہیں اورچھٹیوں کے بعد رغبت بڑھ جاتی ہے، مسلسل تعلیمی سرگرمیاں بغیر کسی تعطل وانقطاع کے جاری رکھنا اس سے طبیعتوں میں اگرچہ تعلیمی رجحان میں کمی نہ بھی ہو، لیکن اس سے بے توجہی ضرور پیدا ہوجاتی ہے، جو نہ صرف بقیہ تعلیمی سال کے لئے نقصان دہ ، بلکہ صحت انسانی کے لئے بھی ضرر رساں ہے، اس کے ساتھ یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ یہی چھٹیاں اگر لمبی ہو جائیں اور طلباء کو یوں ہی فراغت میں چھوڑ دیا جائے تو دو مہینہ تک ایک تو انقطاع کے بعد اکثر طلباء دوبارہ تعلیم کے لئے سنبھل نہیں پاتے اور چھٹیوں سے عادت خراب ہوجاتی ہے، جبکہ دوسری طرف ایک کثیر قسم کے طلباء گھریلو نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے بری عادتوں اور بری دوستیوں کا شکار ہوجاتے ہیں اور بعض طلباء انٹرنیٹ کیفوں کا رخ کرتے ہیں جہاں سے وہ مادر پدر آزاد بن جاتے ہیں۔
ان تمام برائیوں سے بچانے کے لئے حساس والدین بھی اس جانب توجہ کرتے ہیں اور اساتذہ کرام بھی اسی جانب فکر مند رہتے ہیں، اس کا آسان حل یہ ہے کہ نہ صرف اپنے بچوں کی نگرانی کی جائے، بلکہ ان کو کسی نہ کسی تعلیمی سرگرمی میں مشغول رکھا جائے، جو عام پڑھائی کی طرح ایسی طویل اور مستقل نہ ہو کہ بچے بوریت کا شکار ہوجائیں بلکہ مختصر اوقات کے کورسز میں ان کو لگادیا جائے ،تاکہ وہ نہ صرف یہ کہ کچھ نہ کچھ تعلیمی سلسلہ جاری رکھ سکیں، بلکہ فضول قسم کی دوستیوں اور غلط حرکات سے بھی بچ جائیں ، یہی ان کے سیکھنے کی عمر ہے اور ابھی جو کچھ سیکھ لیں گے بقیہ عملی زندگی میں وہی ان کی بنیاد واساس ہوگی۔
چھٹیوں کی بہترین مشغولیات اور بچوں کی نگرانی کے سلسلے میں ایک مضمون عربی رسالہ ”التقوی“ رجب ۱۴۳۰ھ کے شمارہ جوکہ محترمہ عابدہ ناصر الدین صاحبہ کا تحریر کردہ ہے، یہ رسالہ لبنان کے شہر طرابلس سے جاری ہوتا ہے، ہم اس مضمون کا ترجمہ نقل کرتے ہیں ،چنانچہ محترمہ تحریر فرماتی ہیں:
”موسم گرما کی تعطیلات طلباء اور طالبات کے لئے شروع ہوچکی ہیں، چھٹی کے دنوں میں طلباء درسگاہوں سے دور رہتے ہیں، اگر ہم ان کی بھرپور نگرانی اور تربیت نہ کریں تو ان کی زندگی میں ایک خطرناک موڑ آجائے گا۔ طلباء کی ایک کثیر تعداد اپنی چھٹیوں کو روڈوں پرگذار دیتی ہے جبکہ بعض دیگر طلباء اپنی تعطیلات انٹرنیٹ کیفوں میں گذارتے ہیں جبکہ ایک اور قسم برے دوستوں کی صحبت میں وقت ضائع کرتے ہیں جن سے یہ طلباء انحطاط اور پستی میں چلے جاتے ہیں۔ بہت کم لوگ آپ کو ایسے ملیں گے جو اپنی اولاد پر توجہ دیں، ان کو متنبہ کریں، ان کی نگرانی کے فرائض انجام دیتے ہوئے انہیں اپنی نظر میں رکھیں کہ ان کی تربیت محفوظ طریقہ پر ہو اور ان کی عقلیں درست نشو ونما پائیں، چھٹیاں شروع ہونے کے بعد عام روٹین اور اچھے کاموں سے غفلت اور دوری بڑھ جاتی ہے، ہم اپنی اولاد کو ان پر خطر راستوں سے کیسے بچائیں اور کیسے ان شرور سے محفوظ رکھیں؟؟
دین اسلام جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عزت بخشی ہے اور اس دین کو ہم تک نبی کریم ا لے کر آئے، آپ نے ہمیں تعلیم دی، اور کیا ہی خوب تعلیم دی، ادب سکھلایا اور مکمل ضابطہ آداب سکھلائے، ہمیں ہرقسم کی برائیوں سے بچایا، سعادت واطمینان کے حصول کے لئے ایک صحیح ہدف متعین فرمادیا، مزید دن ،رات کے لمحات سے فائدہ اٹھانے کے اصول متعین فرمادیئے، جس کی وجہ سے دنیا وآخرت کے منافع کا حصول ہوتا ہے اور شر وخطاء سے نجات ملتی ہے، اس میدان کا اہم کام یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت بچپن سے اسلامی عقائد کی بنیادوں پر کریں، میرا مقصد اس گفتگو سے اس بات کی نشاندہی ہے کہ خاندانی نگرانی قائم ہو، جس کی وجہ سے ہمارے بچے ہرقسم کی برائی سے بچ جائیں گے جوکہ خاص طور پر دشمنان امت کے خصوصی اہداف ہیں۔
نگرانی کیا ہے؟ اور یہ کیسے ہو؟
حدیث شریف میں ہے: ”ارقبوا محمداً فی اہل بیتہ ای احفظواہم“ یعنی محمد ا کے اپنے گھر والوں سے کئے جانے والے احوال کا مشاہدہ کرو یعنی ان کی طرح اپنے اہل خانہ کی تربیت کرو۔
ایک دوسری حدیث :ہر نبی کو سات نجیب یعنی رقیب ونگران دیئے گئے ہیں:
رقیب کے معنی : محافظ کے ہیں، کہا جاتا ہے: رقیب القوم، اس سے مراد چوکیدار ہوتا ہے جوان کی حفاظت کے فرائض انجام دے۔بہرحال رقیب کے معنی وہ محافظ جو نگرانی کرے اور چوکیداری کے فرائض انجام دے، رقابت کا لفظ ہمیں چوکیداری اور حفاظت کی خبر دیتا ہے، اگر ہم اپنے بچوں کی حفاظت اور چوکیداری نہ کریں تو پھر کون ان کی حفاظت ونگہبانی کرے گا؟ کیا ہم ان کو دشمنوں کے لئے شکار کے طور پر چھوڑدیں اور کیا ہم اپنی اولاد کو بغیر نگرانی کے چھوڑدیں۔جب کہ مطلق العنان آزادی کے نعروں اوردعووں کی بنیاد پر خاندانی اجتماعی نظام کے تباہ کرنے کا پروپیگنڈہ زور شور سے جاری ہے۔کیا یہ تمام چیزیں ہم سے اپنی اولاد کے لئے مزید نگرانی کی طلب گار نہیں؟ بعضوں کا کہنا تو یہ ہے کہ ہرممنوعہ چیز پسندیدہ ہوتی ہے اور جب بھی کسی بات سے منع کریں گے، اس پر ممنوعہ شئ کے حصول کی طلب بڑھ جائے گی اور ان نگرانیوں کو اپنی آزادی سلب کرنے کا راستہ شمار کرے گا اور یہاں سے خاندانی، اجتماعی اورانفرادی نگرانی کے خلاف فضا پیدا ہوگی، اس قول کے دعویداروں کا کہنا ہے کہ صحیح نقشہ ہمارے پاس موجود ہے، اور یہ کسی حد تک کھلے آزادانہ ماحول کے طلب گار ہیں، جہاں ضوابط ونگرانی سے مکمل آزادی ہو، اور انہی جیسے بعض دیگر کا کہنا یہ ہے کہ زندگی کو اپنی ڈگر پر چھوڑدو، اور ہم ہر جدت کا ساتھ دیں، اس کے دوش بدوش ہوں۔
کیا ہم پھر بھی اپنی اولاد کو ان جیسے آزادی کے دعویداروں اور دشمنوں کے لئے چھوڑدیں؟ مناسب ہے کہ ہم اپنے بچوں پر نظر رکھیں، کیونکہ تربیت ایک دائمی عمل ہے، جس کے لئے سرسری توجہ کافی نہیں، بلکہ مسلسل دھیان اور توجہ دینا ضروری ہے۔ اسی طرز عمل سے بچوں کی درست اور موثر اصلاح ہوگی، جوکہ ان کی کامیابی کا زینہ ہوگی۔
اس میں شک نہیں کہ بچپن کا زمانہ یہ اثر اور ماحول قبول کرنے کا بہترین وقت ہے، اور یہی عمدہ لمحات ہیں کہ ان کے اندر اچھی صفات پیدا کریں اور ان کی اعلیٰ تربیت کریں۔
اولاد اور جوان اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام اور عطیہ ہیں، ہم ان کو آزمائش وعذاب نہ ڈالیں، بلکہ اپنی اولاد کو نیکی کے کاموں کی طرف راہنمائی کریں اور ان کو یہ بتلائیں کہ اپنے اوقات کو کیسے کار آمد بنائیں، جس سے خود بھی مستفید ہوں اور امت اسلامیہ بھی اس سے نفع اٹھائے۔ ان کو قرآن کی تلاوت کرنے ، اسے مکمل یا جتنا ہوسکے اسے یاد کرنے پر لگائیں، احادیث نبویہ کے پڑھنے اور آپ کے صحابہ کرام کی سیرتوں کو پڑھنے کی طرف راہنمائی کریں تاکہ وہ ان سے عبرتیں اور اسوہ ٴ حسنہ حاصل کریں ہم اپنے بچوں کو زندگی گذارنے میں سنجیدگی کے طریقے سکھلائیں، ان کو آزادی سے بچانے کا اہتمام کریں، سستی وکاہلی سے دور رکھیں اور اس کے ساتھ صحیح دینی عقائد پر ان کو پروان چڑھائیں، ان کی شخصیات کی حفاظت کریں، تاکہ بچے بڑے ہوکر امت اسلامیہ کی شان دو بالا کردیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے اوقات لایعنی کاموں میں ضائع نہ کریں، والدین کا اپنی ذمہ داری سے غافل رہنا یا تربیت کا صحیح طرز پر اہتمام نہ کرنا یہ بچوں کو ہلاکت میں ڈالناہے۔ ہماری اولاد ایک ایسے ماحول میں رہتی ہے جہاں نشر واشاعت اور ذرائع ابلاغ وافر مقدار میں موجود ہیں، جن کا نفع کم اور نقصان زیادہ ہے اور یہ چیزیں ہماری اولاد کے افکار کو خراب کرنے کے اسباب وذرائع ہیں، اگر ہم بچوں کو ان ذرائع ابلاغ کے رحم وکرم پر چھوڑدیں اور نگرانی اور اہتمام کو بالائے طاق رکھ دیں ،خصوصاً وہ فلمیں ، رسائل اور ذرائع ابلاغ جو عقائد کو خراب کرنے والے ہیں ان چیزوں پر نگرانی چھوڑ دینا ،اپنے فریضہ سے کوتاہی اور اپنے جگر گوشوں کو ضائع کرنا ہے، لہذا ضروری ہے کہ ہم ان بچوں کو ان ذرائع ابلاغ کے استعمال سے حتی الامکان بچائیں اور معقول نگرانی کے ساتھ جائز ذرائع تعلیم کی راہ پر لگائیں،تاکہ پیش کئے جانے والے پروگرام بچوں میں ایک صحیح اسلامی سوچ پیدا کریں اور بچوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے رسول اکرم ا پر فدائیت کو ابھاریں، ان میں تقوی اور خوف خدا پیدا کریں اور ان کی صحیح دینی ،تاریخی اوراسلامی ثقافت سے نسبت قائم کریں اور ان پروگراموں کے ذریعہ پیش کی جانے والی کہانیوں اور قصوں سے عمدہ فاضل اخلاق اور بہترین مزاج نشو ونما پائیں۔ یہ چند تجاویزجو ہم نے آپ کے سامنے رکھی ہیں، انشاء اللہ ان ذرائع ابلاغ کی برائیوں سے نجات دلانے میں ممد ومعاون ثابت ہوں گی“۔
مسلمانوں کی مشکلات خواہ تعلیمی ہوں یا دینی ،بچوں کی اسلامی تربیت کا معاملہ ہو یا اسلامی ثقافت کا ان سب کا مکمل حل یہ ہے کہ اسلامی حکومت خلافت راشدہ کی بنیاد پر قائم ہو، کیونکہ اسی کے ذریعہ عقائد اسلامیہ کی بنیاد قائم ہوگی اور تمام مشکلات کا حل ہوگا۔ پس ہماری دعوت اسلامی خلافت کے قیام کی طرف ہے، جس کے ذریعہ ہم باذن خداوندی دنیا وآخرت کی کامیابی پاسکتے ہیں۔اور جب تک یہ نہ ہو سکے تو بجائے مایوسی کے اپنی مقدور بھر کوششیں کرتے رہیں، اس سلسلے میں ہمارے اکابر ومشائخ نے اپنا روایتی مصلحانہ کردار ہمیشہ کی طرح ادا فرمایا ہے کہ اسکول کے بچے ہوں یا کالج کے نوجوان، موسم گرما کی تعطیلات کو روڈوں کو ناپنے یا انٹرنیٹ کیفوں کی آلائشوں، برے دوستوں کے اثرات سے متاثر ہونے کی بجائے اسلامی عقائد اور قرآن کریم اور احادیث نبویہ کے انوارات میں گزاریں، اس کے لئے ہماری جامعہ کے زیر نگرانی جامعہ کے فضلاء نے دس سال پہلے ان چھٹیوں میں شارٹ کورسز کرانے شروع کروائے ، اور ایک کثیر تعداد اس سے ہرسال فائدہ اٹھاتی ہے، بچوں کے لئے تعلیم وتربیت اور بڑوں کے لئے تعلیم بالغان کے نام سے یہ کورسز مختلف علاقوں میں ہرسال جون، جولائی کی تعطیلات میں ہوتے ہیں، جن میں جامعہ کے فضلاء اور ائمہ مساجد اپنی خدمات انجام دیتے ہیں، اور ان کورسز کے لئے مختلف کلاسوں کے بچوں کی استعداد اور صلاحیت کے مطابق کورسز ترتیب دیے گئے ہیں، جس کی اب تک تین کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں، جن میں بنیادی عقائد، چند قرآنی سورتیں، احادیث بمع ترجمہ، ضروری مسائل، روز مرہ کے موقع و محل کے اعتبار سے پڑھی جانے والی دعائیں ، عربیت سے رغبت اور شوق وذوق پیدا کرنے کے لئے اہم اور کثیر الاستعمال جملے انگلش ٹو عربی کے عنوان کے تحت لائے ہیں۔ اس سلسلہ کی افادیت کو دیکھتے ہوئے یہ کورسز نہ صرف کراچی، بلکہ بیرون کئی ممالک میں شروع ہوچکے ہیں۔
بچے ایک امانت ہیں ،اگرہم ان کی پڑھائی اور علم کے حصول کے لئے کوشاں ہیں تو ضروری ہے کہ ہم ان کی فراغت اور چھٹیوں کے اوقات کی نگرانی میں کمی نہ کریں اور کیا ہی بہتر ہو کہ ہم ان کو چھٹیوں میں تعلیم سے بالکل بیگانہ نہ کریں، بلکہ ان تعلیمی کورسز میں داخل کروائیں یا پھر گھر میں ہی ان کو مختلف چیزیں سکھانے کا اہتمام کریں، جس سے ان کا ایک طرف تو تعلیمی ارتقاء ہو گااور دوسری طرف بچوں کا بیکار رہنے کی وجہ سے مستقبل تباہ نہ ہوگا۔ جس کی بھی اولاد ہو اسے علم ہوتا ہے کہ ان کی دیکھ بھال کتنا ضروری ہے۔ والدین کی طرف سے کتنے مطالبات اور فرمائشیں چھٹیاں گذارنے کے متعلق آتی ہیں، ہماری خواہش تھی کہ اس کو بیان کردیں اور چند مفید تجاویز سرپرست حضرات کے گوش گذار کردیں، جس سے یہ بچے عام نہیں، روشن مستقبل کرنے والے بچے بن جائیں گے ،جن سے سستی، کاہلی اور بے راہ روی نہیں،علم وہنر چستی اور آگے بڑھنے کا جذبہ نظر آئے گا اور یہی ہماری خواہش ہے اور یہی ہر ذمہ دار سرپرست کا مطلوب ہے۔
جامعہ کے اساتذہ کی نگرانی میں مرتب ہونے والا نصاب درحقیقت دعوتِ فکر ہے۔ ہمارے اساتذہ کے پیش نظر نہ تو تجارتی مقاصد ہیں اور نہ ہی کسی خاص تعلیمی مواد پر کسی کو مجبورومحدود کرنا ہے، بلکہ اصل مقصد چھٹیوں میں جزوی طور پر تعلیمی تسلسل کی بقاء، اسکول وکالجز کے بچوں کو مسجد ومدرسہ کا دینی ماحول، دینی وآداب سے قدرے روشناس کرانا ہے۔ ہمارے اساتذہ اس فکر کو اپنانے کی دعوت دیتے ہیں۔ مجلس دعوت وتحقیق سے طبع شدہ نصاب موجود ہے،درج ذیل پتہ سے یہ کورس منگوا سکتے ہیں یا اپنے طور پر کوئی نصاب مرتب کرکے مسلمان بچوں اور بچیوں کو گرمیوں کی چھٹیاں دین کی چھتری کے نبچے گزارنے میں مدد دیں۔وتعاونوا علی البر والتقوی۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ:۱۴۳۱ھ - جون: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: تاریخ مدارس دینیہ !
Flag Counter