Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۳۱ھ - جون ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

10 - 13
صحابہ کرام کی نبی کریمﷺ کے ساتھ محبت کے خاص خاص واقعات !
صحابہ کرام کی نبی کریم ﷺکے ساتھ محبت کے خاص خاص واقعات


بزّار رحمہ اللہ تعالی نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے ۔( اس کی اصل صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مختصر روایت ہے ) کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور فرمایا: اے لوگو !سب سے زیادہ بہادر کون ہے ؟ لوگو ں نے کہا : اے امیر المؤمنین وہ آپ ہیں ، تو انہوں نے فرمایا : جہاں تک میر ا تعلق ہے ، مجھ سے جس نے بھی مقابلہ کیا تو میں نے اس سے بدلہ لیا ہے ۔ لیکن سب سے زیادہ بہادر ابوبکررضی اللہ عنہ ہیں ، ہم نے غزوہِ بد ر کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک سائبان بنایا اور ہم آپس میں کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آج کون ہوگا، تاکہ مشرکین میں سے کوئی آپ کی طرف نہ آسکے ! پس بخدا ہم میں سے ابوبکر کے سوا کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب نہیں گیا ۔ وہ تلوار تانے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرپر کھڑے ہوگئے ، اور جو مشرک بھی آپ کی طرف آتا، آپ اس کے سامنے کھڑے ہوجاتے ۔ یہ سب لوگوں میں زیادہ بہادر ہیں ۔
نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : میں نے قریش کو دیکھا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑا ہوا ہے ، کوئی آپ کو مار رہاہے ،کوئی برا بھلا کہہ رہا ہے، کوئی دھکے دے رہا ہے اور کہہ رہے ہیں : تو نے اتنے معبودوں کو چھوڑ کر صرف ایک معبود چن لیا ہے ؟ پس بخدا !ہم میں سے کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب نہیں آیا سوائے ابوبکررضی اللہ عنہ کے ، وہ آئے اور کسی کو ماررہے ہیں ، کسی سے لڑ رہے ہیں اور کسی کو دھکادے رہے ہیں ، اور کہہ رہے ہیں : تم ہلاک ہوجاؤ، تم ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے ؟!
پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے اوپر سے چادر اتاری اور رونے لگے ،یہاں تک کہ ان کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی ۔پھر فرمانے لگے کہ مجھے بتاؤ کہ فرعون کے خاندان کا مؤمن بہتر ہے یا ابوبکر؟ لو گ خاموش ہوگئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بخدا ابوبکر کی ایک گھڑی فرعون کے خاندان کے مؤمن سے زمین بھر جائے ،ان سے بہتر ہے ۔ کیونکہ فرعون کے خاندان کے شخص نے ایمان چھپا رکھا تھا اور ابوبکر وہ ہیں جنہوں نے اپنے ایمان کا اعلان کیا تھا ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے محمد بن سیرین سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں کچھ لوگ آپس میں تبصر ہ کررہے تھے ، جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر فضیلت دے رہے ہیں، جب حضرت عمررضی اللہ عنہ کو یہ بات پہنچی تو وہ فرمانے لگے : بخدا! ابوبکر کی ایک رات آل عمر سے بہتر ہے اور ابوبکر کا ایک دن آل عمر سے بہتر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات گھر سے نکلے اور غار کی طرف روانہ ہوگئے اور آپ کے ساتھ ابوبکر بھی اور وہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے اور کبھی آپ کے پیچھے چلتے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ گئے اور فرمانے لگے : اے ابوبکر ! کیا بات ہے؟ کبھی آپ میرے پیچھے اور کبھی میرے آگے چلتے ہیں ؟ تو آپ نے عرض کیا : یارسول اللہ ! کبھی میں سوچتا ہوں کہ ہمارا پیچھا کوئی نہ کررہا ہوتو میں پیچھے چلتا ہوں اور کبھی سوچتا ہوں کہ کوئی آگے تاک لگائے نہ بیٹھا ہو تو آپ کے سامنے چلتا ہوں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے ابو بکر ! اگر کوئی چیز ہو تو کیا آپ کو یہ پسند ہے کہ آپ میرے سامنے آجائیں ؟ حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا: جی ہاں ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے ،پھر جب وہ دونوں غار کے پاس پہنچے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یارسول اللہ ! آپ ذرا ٹھہر جائیں ،تاکہ میں آپ کے لئے غار کو صاف کردوں ، ابوبکرغار میں داخل ہوئے اور اسے صاف کیا ، بعد میں انہیں خیال آیا کہ ایک سوراخ بند نہیں کیا ، تو عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ذرا ٹھہر یں، میں اسے بند کردوں، پھر وہ غا ر میں داخل ہوئے اور اس سوراخ کو بند کرکے عرض کیا :یا رسول اللہ ! تشریف لائیں ! پھر آپ صلی الله علیہ وسلم اند ر تشریف لے گئے ۔
پھر حضرت عمر رضی اللہ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہٴ قدرت میں میر ی جان ہے ،وہ رات آل عمر سے بہتر ہے ۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اسلام سے پہلے بھی ان اوصاف کے ساتھ اپنی قوم میں مشہور تھے کہ : وہ غریبوں کی مدد کرتے تھے، صلہ رحمی کرتے تھے ، بے نواؤں کا سہارا تھے ، مہمان نوازی کرتے تھے اور آسمانی آفات میں مدد کرتے تھے، جاہلیت میں بھی کسی گناہ میں ملوث نہیں ہوئے ، نرم دل تھے ، کمزوروں کے ساتھ نہایت رحم دل، یہ صفات ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات تھیں ، لہذا اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ ابوبکررضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مائل ہوں اور مردوں میں آپ کے دین پر ایمان لانے والے پہلے مرد ہوں ۔
حضر ت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی دعوت بہت پر تاثیر تھی، آپ تاجر تھے اور تجارت کی وجہ سے لوگوں میں جا ن پہچان تھی تو آپ نے ایمان لانے کے بعد ایمان کی دعوت شروع کردی اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوگوں کو بلانے لگے ، اس لئے بہت سے لوگ آپ کی وجہ سے ایمان لے آئے ، جن میں حضرت سعد بن ابی وقاص ، عبدالرحمن بن عوف ، عثمان بن عفان ، طلحہ ، زبیر اور سعید بن زید رضی اللہ عنہم جیسے حضرات تھے ۔
حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی حاصل کرنے اور آپ کے دین کی خدمت کے لئے اپنا مال خرچ کرتے تھے ، غلاموں کوآزاد کرتے ، آپ نے بہت سے غلاموں کو آزاد کیا، جن میں حضرت بلال بن ابی رباح ،عامربن فُہَیرہ، اُم عُبیسں، زِنِّیرہ ، نہدیہ اوران کی بیٹی ، بنومؤمل کی باندی وغیرہ کے نام مشہور ہیں ، جس کی وجہ سے آپ کو لو گ ” واھب الحرّیات “ آزادیاں دینے والے اور ” محرر العبید “ غلاموں کو آزاد کرنے والے کے القاب سے یاد کرتے تھے ۔
اسی طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت کے لئے اپنا مال خرچ کیا ، اور ہجرت کے سفر میں تو اپنا سار ا مال اپنے ساتھ رکھ لیا تھا ، اس کے بعد بھی جب کبھی مال خرچ کرنے کا داعیہ پیدا ہوتا تو آپ دوسروں سے سبقت لے جاتے اور کتنے ہی ایسے مواقع آئے کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے اپناسار ا مال خرچ کر ڈالا اور گھر والوں کے لئے اللہ اور اس کے رسول کے نام کو چھوڑا۔اور ان تما م اعمال میں اللہ تعالی کی رضامندی مقصود ہوتی تھی اور آپ ہی کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں :
﴿وَسَیُجَنَّبُھَاالأْتْقٰی الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالہ یتزکیَ وَمَا لِاَحَدٍعِنْدَہ مِّنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰی اِلَّاابْتِغَاءَ َوجْہِ رَبِّہِ الأْعْلٰی﴾ ( الیل:۱۷ ۲۱ )
ترجمہ :۔”اور بچا دیں گے اس سے بڑے ڈرنے والے کو جو دیتا ہے اپنا مال دل پاک کرنے کو اور نہیں کسی کا اس پر احسان ،جس کا بدلہ دے مگر واسطے چاہے مرضی اپنے رب کی جو سب سے بر تر ہے اور آگے وہ راضی ہو گا۔“
اور جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اسلام لائے تو سورة لقمان کی بعض آیا ت نازل ہوئیں ،جن میں ایک آیت یہ بھی ہے :
﴿واتَّبِع سَبِیْلَ مَنْ أنَابَ إِلَیَّ﴾ ( لقمان :۱۵)
ترجمہ:۔”اور راہ چل اس کی جو رجوع ہوا میری طرف ۔“
نیز حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ محبوب تھے، حضرت عمررضی اللہ عنہ کا قول ہے :
” ابوبکرسیدنا،وخیرنا،واحبّناإلی رسول الله صلی الله علیہ وسلم“
ترجمہ:۔” ابوبکر ہمارے سردار ہیں ، اور ہم میں سب سے بہتر ہیں ۔اور سب سے زیادہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب ہیں ۔“
اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سب لوگوں سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت حاصل تھی ،صحیح اور مشہور حدیث میں آیا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کے آخری خطبے میں یہ فرمایا :
”إن عبداً خیّرہ اللّٰہ بین أن یؤتیہ من زھرة الدنیا ماشاء و بین ماعندہ ، فاختار ماعندہ “
یعنی ایک بند ہ کو اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا ہے کہ یا دنیا کی زیبائش میں سے جو چاہے اسے دے دے یا جو اللہ کے ہاں ہے وہ اسے مل جائے تو اس بند ہ نے جو اللہ کے پاس ہے اسے پسند کر لیا ہے ۔“
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ سن کر رونے اور کہنے لگے :
” فدیناک یا رسول الله بآبائناو أمّہاتنا“
ترجمہ:۔”یارسول اللہ ! ہمارے باپ اور مائیں سب آپ پر قربان ہوجائیں۔“
تو راوی کہتے ہیں کہ ہمیں تعجب ہو ا کہ یہ بزرگ کیوں رو رہے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایک شخص کا ذکر فرمایا ہے ، پھر پتا چلا کہ جس بندہ کو اللہ نے اختیار دیا ہے وہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے ، اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ہم سے زیادہ آپ کی معرفت حاصل تھی ۔اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”مامن الناس أحد أمنّ إلینا فی صحبتہ وذات یدہ من ابن أبی قُحافة ، ولوکنت متّخدا خلیلاً لاتّخذت ابن أبی قحافة خلیلاً ،وفی روایة ابابکر“․
ترجمہ:۔”لوگوں میں سے کسی شخص کا رفاقت اور مال میں مجھ پر اتنا احسان نہیں جتنا کہ ابوبکر کا مجھ پر ہے ․اور اگر میں کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابن ابو قحافہ کو اپنا خلیل بناتا ، اور ایک روایت میں (ابن ابوقحافہ کے بجائے ابوبکر ہے )۔“
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے ایک خطبہ میں فرمایا :”ہم پر جس کسی کا بھی احسان ہے ہم نے اس کا بدلہ اسے دے دیا ، سوائے ابوبکر کے ، کہ اس کا ہم پر ایسا احسان ہے جس کا بدلہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن عطا فرمائیں گے ․اور جتنا کہ ابوبکر کے مال نے مجھے فائدہ پہنچایا اتنا کسی کے مال نے فائدہ نہیں پہنچایا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خطبہ کے آخر میں فرمایا : ابوبکر کے تاقچہ کے علاوہ کسی کا دروازہ مسجد میں کھلانہ رکھا جائے ․ اور ایک روایت میں ہے کہ : ”ابوبکر کے دروازہ کے علاوہ کسی کا دروازہ نہ رکھا جائے، کیونکہ میں نے اس پر نور دیکھا ہے ․،،
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی طرف بھی اشارہ ہے ․ کہ صرف ان کا تاقچہ باقی رکھا جائے ․ اور خوخہ ایک چھوٹا سا دروازہ تھا جو براہ راست مسجد نبوی میں کھلتا تھا،لہذااسے باقی رکھا گیا، کیونکہ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ضرورت تھی ․تاکہ وہ مسلمانوں کے معاملات کی نگرانی کر سکیں ․ حضرت ابوبکر رضی للہ عنہ کی خلافت کے بارے میں اشارہ کرنے والی احادیث بہت ہیں ․ اور ان کی خلافت پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اہلبیت کا اجماع ہے ۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ:۱۴۳۱ھ - جون: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: پاوٴں کا وظیفہ دھوناہے یا مسح؟
Flag Counter