Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۳۱ھ - جون ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

5 - 13
موجودہ حالات اور اختلاف ِ رائے !
موجودہ حالات اور اختلاف ِ رائے


عالمِ اسلام آج جن مسائل سے دو چار ہے ان میں سب سے بڑا مسئلہ اپنے دین سے روگردانی ہے، اس کے ازالے کے لئے جو پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں اور ان سے متعلق جو حکمت عملی ترتیب دی جاتی ہے اس پر امت میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے، لہذا لگتا یہی ہے کہ فی الحال یہ اختلاف ہی بڑے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ ہے۔
کئی صدیوں سے امت میں اتحاد واتفاق کا فقدان پایا جاتا ہے اور امت کا اتحاد جتنا ناگزیر ہے اتنا ہی مشکل بھی ہے۔ آج کل یہ اختلاف اتنا بڑھ گیا ہے کہ اب مسلمانوں میں اختلافی امور پر ”شوقیانہ بحث ومباحثے،، رواج اور فیشن بن چکے ہیں، اختلاف کا شوق اتنا بڑھ گیا ہے کہ عام قسم کے لوگ بھی اکابرین امت سے ”کھل کر،، اختلاف رکھ کر خود کو دھوکہ دینے میں مبتلا ہیں، باقی رہے پنج وقتہ نمازی اور روزے دار ان کی توبات ہی کچھ اور ہے اور بصیرت سے عاری لوگوں کو اختلاف اور انتشار کے بھیانک نتائج کا ادراک نہیں اور انہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ یہ ذہنیت بھی یہود کی پیداوار ہے جنہوں نے غیر یہود (بالخصوص مسلمانوں) کو مختلف انداز سے سوچنے کے لئے مختلف نظریات (جیسے سیکولرازم، سوشلزم، قوم پرستی اور دیگر خرافات) کے ساتھ ہی میڈیا کا استعمال کیا، مختلف انداز سے سوچنا اور عمل کرنا ہی تو اختلاف ہے۔نتیجہ واضح ہے کہ بہت سے دین دار اور سمجھدار کہلانے والے حضرات بھی اختلاف رائے کے آداب نہ جانتے ہوئے امت کی بہت بڑی ہستیوں سے متعلق انتہائی نازیبا اور نامعقول رائے رکھتے ہیں اور اپنی نادانی کو نادانی ہی کی وجہ سے سمجھ نہیں پاتے۔
اختلاف رائے رکھنے والے مختلف قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔بعض لاعلم، کم فہم، بے دین، ان پڑھ اور میڈیائی پروپیگنڈے کے شکار لوگ انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ کسی رائے کا اظہار کر بیٹھتے ہیں، پھر ہوتا یوں ہے کہ نہ تو انہیں سمجھایاجاسکتا ہے، کیونکہ وہ میڈیا کے حقائق سے باخبر ہوتا ہے، نہ تو ان کے پاس اپنی رائے سے متعلق معقول دلائل ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں نتائج کا ادراک ہوتا ہے یا کبھی کھبار ایسا ہوتا ہے کہ چند ٹوٹے پھوٹے دلائل تو رکھتے ہیں لیکن ایسے نامعقول کہ صرف جان چھڑانے کے لئے ان کو استعمال میں لایاجاتا ہے ،جس سے ان کا اپنا ضمیر بھی مکمل طور پر مطمئن نہیں ہوتا۔
ٍبعض حضرات ایسے ہوتے ہیں کہ ناقص معلومات، مفروضوں، پروپیگنڈوں اور افواہوں کے زیر اثر رہ کر کچھ عجیب وغریب رائے کا اظہار کرکے اپنی عقلمندی کا پردہ چاک کردیتے ہیں لیکن جب انہیں حقائق کا پتہ چل جاتا ہے تو خاکساری اور حقیقت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی سابقہ رائے سے دستبردار ہوجاتے ہیں، لیکن بعض پرلے درجے کے عقلمند ایسے بھی ہوتے ہیں جو حقائق سے باخبر ہوکر بھی اپنی سابقہ اور فضول رائے سے دستبردار ہونا برداشت نہیں کرتے، ایسے لوگ یا تو ایک ایجنڈے کے تحت ایسا کرتے ہیں یا پھر ان میں صرف اور صرف ہٹ دھرمی کا عنصر ہوتا ہے۔ایسا بھی دیکھنے میں آتا رہتا ہے کہ بعض لوگ کوئی ایسی رائے قائم کرلیتے ہیں کہ ان کے پس پردہ مقاصد کچھ اور ہوتے ہیں، لیکن انہی مقاصد کے حصول کے لئے دلائل کچھ اور قسم کے دیئے جاتے ہیں، یعنی یہ ظاہر بھی نہیں کرتے کہ ان کے پیچھے اصل مقاصد کیا ہیں، ان کے لئے یہی کافی ہے کہ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام۔
روشن خیال لوگوں کا خیال ہے کہ انسان کسی بھی قسم کی رائے قائم کرنے میں آزاد ہے اور کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسروں کی رائے پر اثر انداز ہو، اور انہیں اپنی رائے واپس لینے پر مجبور کرے۔ یہ خیال بھی دراصل مغرب سے درآمد شدہ لادین نظریات کا نتیجہ ہے، مغرب کو تو آزادی رائے کی وجہ سے جن خرافات کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ بھی دل دہلا دینے والے خرافات ہیں لیکن ان پر توبہ کرنے یا اپنے ہی دین سے رجوع کرنے کی بجائے مسلمانوں کو انہی خرافات میں دھکیلنے کے لئے پر تول رہے ہیں، قرآن وسنت کے حوالے سے علماء کرام نے اسلامی احکامات کو فرض ، واجب، سنت اور مستحب قرار دے کر ان کی تعریف کی اوران کو ترتیب دیا اور ساتھ ہی یہ بھی سمجھایا کہ جو احکامات فرض ہیں وہ قطعی دلیل کے ساتھ ثابت ہیں لہذا دیگر کے بارے میں بھی تفصیل سے سمجھایا۔ الغرض یہ کہ ان فرائض کے حوالے سے واضح کیا کہ ان امور میں کسی بھی کلمہ گو مسلمان کو کرنے یا نہ کرنے سے متعلق زبان درازی کا اختیار نہیں ہے اور یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات عمل کرنے کے لئے ہوتے ہیں اور جس عمل سے قرآن وسنت نے منع فرمایا ہے وہ نہ کرنے کے کام ہیں اور اس معاملے میں اپنی طرف سے کوئی رائے گھڑ لینا کسی مسلمان کے شایان شان نہیں۔
امت میں اختلاف رائے کوئی نئی بات نہیں، لیکن تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اختلاف رائے کے نام پر امت مسلمہ اصل مقاصد پر توجہ دینے کے قابل نہ رہی اور بہت سے حضرات نے رائے قائم کرتے ہوئے امت کے اتحاد کو تار تار کردیا۔میرا مقصد صحابہ کرام کے اختلاف کو بیان کرنا، آئمہ کرام یا علمائے دیوبند کے باہمی اختلاف کو موضوع بحث لانا نہیں، کیونکہ صحابہ کرام سے متعلق تاریخ گواہ ہے کہ وہ کفار کے خلاف ایک مضبوط چٹان بن کر اتحاد ہی میں رہتے ہوئے ان کا ایک وسیع علاقہ فتح کرلیا۔ آئمہ کرام کا اختلاف صرف فقہی مسائل تک محدود تھا، آج کل کی طرح وہ ایک دوسرے کی غیبت، بہتان اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر کبھی نہ اترتے۔ مزے کی بات ہے کہ وہ ایک ایک مسئلہ پر گھنٹوں نہیں، بلکہ راتوں تک بحث کرتے، حتی کہ صبح ہوجاتی لیکن پھر بھی ان کی محبت اپنی مثال آپ سمجھی جاتی تھی۔
اسی طرح قیام پاکستان سے پہلے قیام پاکستان اور تقسیم ہند کے مسئلے پر علماء دیوبند میں شدیداختلاف پایا جاتا تھا۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ، مفتی کفایت اللہ، امیر شریعت حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری جیسے علماء کرام تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے حق میں نہیں تھے، جبکہ دوسری طرف علماء دیوبند ہی میں سے حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی، علامہ شبیر احمد عثمانی، مفتی محمد شفیع عثمانی جیسے علماء کرام قیام پاکستان کے حق میں تھے۔ ان اختلافات کے باوجود حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی اور حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی کے جو باہمی تعلقات تھے وہ بھی اپنے زمانے میں اپنی ہی مثال آپ تھے۔ یہاں تک کہ حضرت مدنی جو کبھی کھبار حضرت حکیم الامت  کے ہاں آتے رہتے تھے، حضرت حکیم الامت ایک مرید جو قیام پاکستان کے حق میں ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ کے اجلاسوں میں شرکت کرتے رہتے تھے، ایک دن حضرت مدنی کے خلاف برا بھلا کہنا شروع کیا۔ حضرت حکیم الامت کو پتہ چلا تو اس مرید کو اپنی خانقاہ سے نکال باہر کیا اور تاوقتیکہ وہ حضرت مدنی  سے دست بستہ معافی نہ مانگتا اپنی خانقاہ آنے نہیں دیا، اس کو کہتے ہیں محبت اور اخلاص۔
آج کل کے اختلافات ،صحابہ کرام، آئمہ کرام یا علماء دیوبند کی طرح نہیں ،ان کا اختلاف وہی ہوتا جو وہ بیان کرتے لیکن آج کل نصف اختلافات تو ظاہراً ہوتے ہیں جبکہ کچھ خفیہ بھی ہوتے ہیں اور بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ بعض اوقات ظاہراً جو اختلاف ہوتا ہے اس کی وجہ ہی خفیہ اختلاف ہوتا ہے، لیکن کھل کر کھری بات کرنے میں فائدہ نہیں سمجھاجاتا، اس لئے دل میں کچھ اور منہ میں کچھ اور ہوتا ہے۔
ان تمام خرافات کا حل یہ ہے کہ ہم اپنے عمل، کردار اور رائے میں اخلاص پیدا کریں، خصوصاً مذہبی طبقہ جو روزانہ امت کے اتحاد کے حوالے سے بیانات جاری کرتے نہیں تھکتے واقعتاً بھی امت کے اتحاد کی فکر کریں اور امت کے اتحاد کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی نیک ، پرخلوص اور معقول رائے کا نہ صرف احترام کریں بلکہ جب اس سے مطمئن ہوجائیں تو اتفاق سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہئے اور جب کسی کی رائے میں معقولیت اور اخلاص کے فقدان کو محسوس کریں تو اس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے، نہ کہ اس کی پیٹھ پیچھے باتیں بنانا شروع کردیں، جس کا اکثر اوقات ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا اور ہم غیبت اور بعض اوقات بہتان کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔ لہذا غیبت اور بہتان سے بچنے کی خاطر ہمیں ہرقدم سوچ سمجھ کراٹھانا چاہئے، ان شاء اللہ موجودہ حالات میں امت مسلمہ کے اتحاد اور انفرادی رائے میں بہتری اور اخلاص پیدا ہونا شروع ہوجائے گا۔ اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ:۱۴۳۱ھ - جون: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: گڈمارننگ سے بچئے ! السلام علیکم کو فروغ دیجئے !
Flag Counter