Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۳۱ھ - جون ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

3 - 13
صوبہ خیبر پختونخوا نام رکھنا کیا ضروری تھا؟
صوبہ خیبر پختونخوا نام رکھنا کیا ضروری تھا؟

ربع صدی قبل ایران کے شہر زاہدان میں کسی دوست سے ملنے جانا تھا، ٹوٹی پھوٹی فارسی زبان میں کسی سے رہبری طلب کی، اس کے پلے کچھ نہ پڑا۔ دفعتاًچوراہے کے درمیان پٹھان کو دیکھا جوپرانے جوتے سی رہا ہے، اس کی خدمت میں فوراً حاضری لگائی اور پشتو میں اس سے پوچھا فلان شہر ”خیابان“ میں ایک دوست سے ملنا ہے، رہنمائی کیجئے! فرمانے لگے ”ماشین“ میں بیٹھ جائیں (ماشین وہ پک اپ کو کہتے ہیں) اور اتنے تومان دیدیں اور اس کو یہ بتادیں، منزل پہ اتار دے گا۔ مزدور پشتون نے ہماری مشکل آسان کردی۔
براہوی کی کہاوت ہے ”اراڑے دسپتہ ہموڑے خرّک“ یعنی جہاں اس کو مت بوؤ، وہاں اگ جائے گا۔ دنیا کا کونسا خطہ ہے جہاں پشتون موجود نہیں اور جہاں وہ اپنا جوہر نہیں دکھا رہا ہے۔
کافی دنوں سے ”پشتونخوا“ کا مسئلہ زوروں پر ہے، ابتداء میں لوگ اس کی اسپیلنگ (املاء) سے ناواقف تھے، اب رفتہ رفتہ غیر پشتون بھی اسے سمجھنے لگے ہیں۔
کافی پرانی بات ہے، مجھے اس کا املاء رحیم کلے وال مرحوم نے اس وقت بتایاتھا جب پشتون بلوچ کے درمیان خیر سگالی بڑھانے کے لئے حضرت مولانا عبد الغفور (بلوچی سٹریٹ) کے ہاں ایک میٹنگ تھی، جس کی کارروائی راقم الحروف لکھ رہا تھا، کلی وال مرحوم نے میرے املاء کو درست کیا تھا کہ یہ لفظ ”خواہ“ نہیں ”خوا“ ہے جس کا معنی ہے: طرف اور جانب۔
کہاجاتا ہے صوبہ سرحد کے نام کو کافی جد وجہد کے بعد تبدیل کیاگیا اور پشتونوں کو اپنی شناخت مل گئی، کیا پشتون ایسے گمنام تھے کہ ان کو ایک صوبے کے ذریعے شناخت مل جاتی۔ جمہوریت میں ہرفرد اور ہر جماعت کو آزادی ہے کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کرے۔ میں: ” ہرملک ملک ماست کہ ملکے خدائے ماست“ کے نعرے کو (اگرچہ بہت قدیم اور نعرہ ٴ مستانہ ہے) پشتونوں کے مطابق حال سمجھتا ہوں، اللہ تعالیٰ نے اس قوم میں ہرطرح کی صلاحتیں رکھی ہیں، اس کو ایک ڈویژن یا صوبے تک محدود کرنا اس کی بلند پروازی کو گھٹا نے کے مترادف ہے۔” دریاست کہ صحراست تہ وبالِ پرماست،، کو اگرچہ ”پی آئی اے“ یا پی، اے، ایف نے اپنا موٹو بنارکھا ہے، لیکن عملی میدان میں دیکھاجائے تو اس کا مصداق ”پشتون“ ہے، ایسی جفاکش، غیور، مہمان نواز اور بے پناہ صلاحیتوں کی مالک قوم کو ایک ڈویژن یا صوبے تک محدود رکھنا سراسر بے انصافی ہے۔
ویسے آجکل ایک ایس ایم ایس یہ بھی گردش میں ہے کہ ہمارے قوم پرست بھائی یہ تحریک بھی چلائیں کہ نسوار کو پشتونوں کا قومی نشہ قرار دیاجائے تاکہ اس میدان میں ان کو ایک شناخت میسر ہو۔ مضمون کی ابتداء میں زاہدان کے محنت کش پشتون کے تذکرے سے یہ نہ سمجھاجائے کہ ہماری محنتوں کا میدان صرف نچلے درجے کا ہے، جدید وقدیم علوم، صنعت وحرفت، سپہ گری وبہادری، جہاں گیری وجہان بانی کی ہماری ایک سنہری تاریخ ہے ۔ آج پوری دنیا میں امریکہ مخالف تحریک کی قیادت انہی کے ہاتھوں میں ہے، جو لوگ ہمیں محض زبان کی بنیاد پر دیگر قوموں سے لڑاکر ”شناخت “ دلاتے ہیں ہمارے ان نادان خیرخواہوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ نفرتوں کی اس آگ میں ہمارے پرجل جائیں، صرف پشاور ، کابل وقندہار ہمارے نہیں، کراچی ، لاہور بلکہ عرب وعجم سب ہمارے ہیں۔ کیا لاہور پر ”ایاز“ نے حکمرانی نہیں کی؟ جس کے بارے میں کہاگیا ہے: ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز۔ نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
پشتونوں کو ایک محدود شناخت دے کر خود ”پشتونخوا“ صوبے میں غیر پشتون بھائیوں کے ساتھ نفرت کا ایک خلیج قائم کرنے سے کس کو فائدہ ہوا؟ حالانکہ وہ بھی ہمارے بھائی مسلمان اور پاکستانی ہیں اور پھر تعجب دو دفعہ وزیر اعظم رہنے والے جناب میاں نواز شریف پر ہے جس نے پشتونخوا کے معاملے میں اختلاف تو کیا لیکن اس کو منطقی انجام تک پہنچائے بغیر ڈھیر ہوگئے۔ اگر خیبر کی بجائے ایک ایسا لفظ ساتھ کردیتے جس سے غیر پشتونوں کی اشک شوئی اور حوصلہ افزائی ہوتی تو اختلاف رائے بامقصد ہوتا، اب کیا بنا؟
گذارش کرنے کا یہ مقصد ہے کہ ایک باصلاحیت اور کار آمد قوم کو نفرتوں کے میدان میں دھلیلنے سے اس کو فائدے کے بجائے نقصان ہوگا ۔آج وہ صرف اپنے ملک کے چاروں صوبوں میں ہی نہیں چین، جاپان، فرانس اور امریکہ وغیرہ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوارہا ہے، نفرتوں کو مہمیز لگنے کے بعد وہ کراچی جیسے غریب پرور اور زرخیز شہر سے ”پشتونخوا“ کی جانب کوچ کرنے اور پاکستان کے دل ”لاہور“ سے بوریا بسترگول کرنے پر مجبور ہوگا تو سعدی کے بقول:
اگر خصم جان تو عاقل بود،
بہ از دوست دارے کہ جاہل بود۔
والی بات ہوئی، فارسی کے شعر کا ترجمہ ہے۔ اگر تیری جان کا دشمن سمجھدار ہو اس خیرخواہ اور دوست سے اچھا ہے جو نادان ہو۔ نفرتوں کا انجام بڑا خطرناک ہوتا ہے، چاہے وہ لسانی ہو یا علاقائی، مذہبی فرقہ واریت کی شکل میں ہو یا کسی اور عنوان سے۔
اسلام کی ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ دشمن نے ہمیشہ مسلمانوں کو آپس میں لڑاکر کمزور کیا ہے، پشتون ہو یا بلوچ، سندھی ہو یا پنجابی، اردو بولنے والا ہو یا سرائیکی بولنے والا ، چترالی بولنے والا ہو یا ہندکو، سب پاکستانی اور امت مسلمہ کے گلدستے کے پھول ہیں، اس قسم کا گلدستہ سب سے پہلے جناب محمد رسول اللہ ا نے مدینہ منورہ میں بنایا تھا، جس میں مقامی لوگوں کے علاوہ حضرت بلال حبشی ، حضرت صہیب رومی اور حضرت سلمان فارسی جیسے پھول جڑے ہوئے تھے۔آج ایک دفعہ پھر پرانے شکاری نیا جال لے کر میدان میں اترے ہیں، امت میں پھوٹ ڈال کر کچھ لوگ بزعم خویش اپنی اپنی قوموں کو فائدہ پہنچارہے ہیں، جبکہ حقیقت میں وہ لاشعوری طور پر دشمن کے لئے آسانی پیدا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
اہل علم، بطور خاص خطباء مساجد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پورے ملک میں اس کو موضوع بحث بناکر دین دار طبقے کو اس مسموم نعرے کے عواقب سے آگاہ کردیں، ملک کے کسی بھی حصے میں لسانی نفرتوں کے بیج بونے والوں کو اس طرح بے نقاب کیا جاسکتا ہے۔ اپنی مادری زبان اور اپنی قوم سے محبت انسان کی فطرت کا تقاضا ہے، اس کا انکار ممکن نہیں، لیکن اس جذبے کو دیگر اقوام کے ساتھ نفرت کے لئے استعمال کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟
اوس وخزرج کے تاریخی بغض وعناد، نفرت وعداوت کو محبت میں تبدیل کرنیوالا نسخہ قرآن نے بتادیا تھا کہ اسلام کی بدولت اللہ کی مہربانی سے یہ کام پایہ ٴ تکمیل کو پہنچا ہے، اگر دنیا بھر کے خزانے اس کام پر صرف ہوتے تب بھی مدینہ منورہ کے ان دو معروف قبائل کی نفرتیں ہرگز ختم نہ ہوتیں، لیکن اللہ نے کرم فرمایا۔ کسی بھی زبان بولنے والے عالم دین کو اس حساس معاملے میں معذرت خواہانہ لہجہ اپنانے کی بجائے کھل کر میدان میں آنا چاہئے ، یہ ایک عملی جہاد ہے کہ امت مسلمہ کو قوم ، قبیلہ اور زبان وبولی کی بنیاد پر تقسیم ہونے سے بچایاجائے۔
واضح رہے کہ امت مسلمہ میں اگر پشتونوں کا کوئی قائدانہ کردار ہے تو وہ اسلامی حوالے سے ہے، یہ عنصر درمیان سے نکال دیں تو پھر اسی لطیفے کامنظر سامنے آئے گا جو حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے درمیان پیش آیا تھا۔ دونوں بزرگ دائیں بائیں کھڑے ہیں، درمیان میں قد کے لحاظ سے چھوٹے حضرت علی ہیں، حضرت عمر نے فقرہ چست کیا ۔ ”یا علی انت بیننا کالنون فی لنا،، فی البدیہہ اور برجستہ جواب دیا: نون کو درمیان سے حذف کردیں تو ”لا“ بن جائے گا ۔پشتون اگر اسلامی اور مجاہدانہ کردار چھوڑدے تو پھر اس کی کوئی نمایاں حیثیت نہیں رہتی ۔ پیوستہ رہ شجر سے امید ے بہادر رکھ۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ:۱۴۳۱ھ - جون: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: مروّجہ نعتوں اور نظموں کا حکم !
Flag Counter