شرح صدر بھی نعمت خداوندی ہے
شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم الله خان مدظلہ
الحمد لله و کفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی اما بعد :
فاعوذ بالله من الشیطان الرجیم ۔ بسم الله الرحمن الرحیم
” اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ o وَ وَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ o…
اس سے پہلی سورت (سورة الضحیٰ) میں حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے جو خصوصی انعامات ہوئے ان کا ذکر تھا، حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے محاسن اخلاق کا بھی وہاں ذکر ہوا۔ اس سورت کے اندر اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم پر تین انعامات کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک ”شرح صدر“ اور ایک ”وضع وزر“ اور ایک ” رفع ذکر“ ۔ الم نشرح لک صدرک کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کو شرح صدر کی دولت عطا نہیں کی؟ ”و وضعنا عنک وزرک“ اور ہم نے آپ سے آپ کے بوجھ کو ہٹایا ”و رفعنا لک ذکرک “ اور آپ کی خاطر ہم نے آپ کے ذکر کو اونچا اور بلند کیا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے قلب مبارک کو کشادہ کردیا، آپ کو شرح صدر عطا فرمایا، آپ کے قلب مبارک کو کشادہ فرما کر وحی ربانی کے ذریعے علوم کے سمندرآپ کے قلب میں داخل فرمادیئے۔ سینے کو کشادہ کر کے آپ کو حوصلہ بھی بخشا اور ہمت بھی عطا کی، یہ شرح صدر بہت بڑی نعمت ہے، اس سے استقامت حاصل ہوتی ہے، اس کی بنیاد پر اللہ تبارک و تعالیٰ اخلاص کی دولت عطا کرتے ہیں۔ آدمی کوئی کام کرتا ہے مگر اس کے بارے میں اس کو شرح صدر نہیں ہوتا۔ یعنی تسلی اور اطمینان نہیں ہوتا۔ گو مگو کی کیفیت میں رہتا ہے۔وہ کبھی اپنے اس مشن میں جس کو بغیر شرح صدر کے اس نے شروع کیا تھا کامیاب نہیں ہوتا ، شرح صدر بہت ضروری ہے، شرح صدر ہوگا تو پورا اطمینان ہوگا ، مکمل تسلی ہوگی۔ جب اطمینان ہوگا تو استقامت حاصل ہوگی اور آدمی مستقل مزاجی سے اس کام کو انجام دے گا،یہی نہیں بلکہ شرح صدر اور اطمینان کامل کے نتیجے میں اللہ تبارک و تعالیٰ اخلاص کی دولت بھی عطا فرمائیں گے۔
مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ الله تعالیٰ کا شر ح صدر
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ الله تعالیٰ نے کس شرح صدر کے ساتھ دار العلوم دیوبند کی بنیاد رکھی تھی۔ اللہ اکبر ! کہ آج اس بر صغیر کے اندر جس میں پاکستان بھی شامل ہے ، ہندوستان بھی داخل ہے۔ بنگلہ دیش بھی اس میں آجاتا ہے۔ ہزاروں درسگاہیں اس مدرسہ کی طرز پر،اس کی نسبت سے، اسی مدرسہ کی شاخ کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ یہ ہمارا مدرسہ بھی دارالعلوم دیوبند کی شاخ ہی ہے، آپ جانتے ہیں کہ کراچی میں کتنے دار العلوم ہیں، ماشاء الله سب کا وہی نصاب تعلیم ہے، سب کی اسی کی طرف نسبت ہے، سب اپنی مادر علمی اسی کو قرار دیتے ہیں۔ پورے پاکستان میں دیکھ لو، پھر ہندوستان میں دیکھ لو ، بنگلہ دیش میں دیکھ لو، وہ شرح صدر جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا فرمایا تھا یہ اس کے ثمرات اور برکات ہیں۔
مولانا الیاس رحمہ الله تعالیٰ کا شرح صدر
اسی طرح حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمہ الله تعالیٰ نے جب دلی میں دعوت و تبلیغ کا کام شروع کیا تو بڑے شرح صدر کے ساتھ ابتدا کی۔ اس کی بہت سی تفصیلات ہیں اور بہت سے اس کے جزئی واقعات ہیں۔ ایک واقعہ ان کے شرح صدر کے تعلّق سے میں آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں۔ زاہدان (ایران کا ایک شہر ہے) میں ایک عالم مولانا عبد العزیز صاحب رحمہ الله تعالیٰ تھے۔ ابھی پچھلے دنوں ان کا انتقال ہوا ہے۔ وہ فرماتے تھے کہ جب مولانا الیاس صاحب رحمہ الله تعالیٰ نے اپنے کام کا آغاز کیا اور زیادہ دن نہیں ہوئے تھے، اس وقت میں مدرسہ امینیہ دہلی میں پڑھتا تھا اور کبھی کبھی مولانا الیاس صاحب رحمہ الله تعالیٰ کی زیارت کے خیال سے نظام الدین تبلیغی مرکز جایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ مولانا الیاس صاحب رحمہ الله تعالیٰ نے فرمایا کہ بھائی مولوی عبد العزیز صاحب ! جب ہماری جماعتیں دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں زاہدان آئیں گی تو آپ ان جماعتوں کی نصرت کرنا۔ مولانا عبد العزیز صاحب فرماتے تھے کہ میں نے کہا ، حضرت زاہدان تو بہت دور ہے۔ آپ کی جماعت والوں کو تو دہلی والے مسجدوں میں گھسنے نہیں دیتے ، وہ زاہدان کیسے جائیں گے؟ اور ہم ان کی کیسے نصرت کریں گے؟ عجیب سی بات ہے تو مولانا محمد الیاس صاحب رحمہ الله تعالیٰ نے فرمایا کہ انشاء الله ضرور جائیں گی اور آپ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ یہ شرح صدر کی بات ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو شرح صدر عطا فرمایا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بڑی استقامت کے ساتھ انہوں نے اپنے کام کو جاری رکھا اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس میں خلوص عطا فرمایا اور وہ کام سارے عالم کے اندر پھیل گیا۔
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے لیے شرح صدر کی نعمت
یہ معاملہ تو نبی اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے غلاموں کے ساتھ ہوا۔ پھر نبی کی شان کیا ہوگی؟ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو شرح صدر آپ کو عطا فرمایا ۔ ”الم نشرح لک صدرک ‘ ‘ کیا ہم نے آپ کا سینہ نہیں کھول دیا؟ گویا جتلایا جارہا ہے کہ آپ کے سینے میں ہم نے علوم داخل کردیئے ، حوصلہ اور ہمت داخل کردی اور اس کا نتیجہ کیا ہے؟ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی یہ محنت تسلسل کے ساتھ جاری رہی ۔ منقطع نہیں ہوئی۔ ہر طرح کی مشکلات اور دشواریوں کے باوجود آپ نے ہمت نہیں ہاری، ہر طرح کی رکاوٹوں کے باوجود آپ کا یقین اپنی جگہ پر تروتازہ رہا۔ یعنی قبیلے کے اور شہر کے لوگ دشمن ہیں، کیسی کیسی ایذائیں پہنچانے کے لیے انہوں نے تدابیر کیں۔ لیکن نبی اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کو اللہ تبارک تعالیٰ نے جو حوصلہ عطا فرمایا تھا اس سے کام لے کر آپ نے ان تمام رکاوٹوں کو برداشت کیا اور اپنے کام کو دلجمعی کے ساتھ آپ انجام دیتے رہے۔ اسی وجہ سے آگے فرمایا : ”و وضعنا عنک وزرک الذی انقض ظہرک “ آپ کے اوپر سے بوجھ کو ہٹا دیا جو آپ کی کمر توڑ رہا تھا۔ ایک تو ان تکالیف ، شدائد اور مصائب کا بوجھ تھا جو کفار کی طرف سے آپ کو درپیش رہتی تھیں، ان مصائب و مشکلات کو آپ نے برداشت کیا اور دوسرے وحی کا تحمل کرنے کی اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمت دی، وہ وحی کہ اگر پہاڑ کے اوپر نازل ہوتی تو وہ ریزہ ریزہ ہوجاتا، اس وحی کا تحمل کرنے کی قوت اور ہمت اللہ تبارک و تعالیٰ نے عطا کی۔ پھر یہ خوش خبری دید ی کہ ”ورفعنا لک ذکرک“ ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کیا ۔ بنیادی چیز کلمہ ”لا الہ الا الله محمد رسول الله “ہے اس میں آپ کا نام ہے درود میں تشہد میں اذان میں خطبہ میں آپ کا نام پڑھا جاتا ہے حشر میں جنت کے دروازہ پر آپ کا نام لکھا ہوا ہے۔ عرش کے کناروں پر آپ کا نام لکھا ہوا ہے۔
ایک اور لطیف امر بھی اس میں موجود ہے کہ اگر ”الم نشرح صدرک “ کہا جاتا تو بھی بات پوری تھی۔ ”و وضعنا وزرک “ اگر فرمایا جاتا تو تب بھی بات پور ی تھی ”ورفعنا ذکرک“ ہو تاتب بھی مقصد حاصل تھا لیکن نہیں۔ بلکہ”الم نشرح لک صدرک“ میں ”لک“ کا اضافہ فرمایا اور ”ووضعنا عنک وزرک “ میں ”عنک“ کا اضافہ فرمایا ۔ ”و رفعنا لک ذکرک “ میں بھی ”لک“ کا اضافہ فرمایا بغیر ”لک“ کے اول اور آخر کی آیات میں اور بغیر ”عنک “ کی درمیان کی آیت میں بات مکمل ہے۔ لیکن حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی خصوصیت کا اظہار کرنے کے لیے ”الم نشرح لک صدرک“ ارشاد فرمایا گیا۔ ”ووضعنا عنک وزرک“ ارشاد فرمایا گیا ہے اور ”ورفعنا لک ذکرک “ ارشاد فرمایا گیا ہے۔ یعنی خود نبی اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی خاطر اللہ نے آپ کو شرح صدر کی دولت دی اور اللہ نے آپ کی خاطر اس ”وزر “ اور بوجھ کو آپ سے ہٹا دیا جو کمر توڑنے والا تھا اور آپ کی خاطر اللہ نے آپ کے ذکر کو اونچا اور بلند فرمایا۔
اس کے بعد ”ان مع العسر یسرا“ دو مرتبہ فرمایا گیا ہے۔ آپ نے قاعدہ پڑھا ہے کہ معرفہ کا اعادہ جب بشکل معرفہ ہوتا ہے تو اس میں بعینہ پہلا معرفہ ہی مراد ہوتا ہے اور نکرہ کا جب اعادہ نکرہ کی صورت میں ہوتا ہے تو اس سے پہلا والا نکر ہ مراد نہیں ہوتاہے۔ ”ان مع العسر یسرا“ میں ”العسر “ معرفہ ہے اور ”یسرا“ نکرہ ”فان مع العسر یسرا“ میں بھی ”العسر “ معرفہ ہے اور ”یسرا“ نکرہ ہے۔ جب ”العسر“ کو دو مرتبہ لا یا گیا ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ ایک ہی ”عسر“ مراد ہے اور ”یسر“ کو دو مرتبہ نکرہ لایا گیا ہے تو اس سے معلوم ہو اکہ پہلا ”یسر“ کچھ اور ہے اور دوسرا ”یسر“ کچھ اور ہے۔ اسی لیے نبی اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ”ان یغلب عسر یسرین“ کہ ایک عسر دو یسر پر غالب نہیں آسکتا ۔ #
اذا اشتدت بک البلوی ففکر فی الم نشرح
فعسر بین یسرین اذا فکرتہ فافرح
عسر ایک اور یسر دو ۔ لہٰذا ایک مشقت و تکلیف کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کئی کئی سہولتیں اور کئی کئی آسانیاں عطا فرماتے ہیں، نبی اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے وہ مشقّت جو کفار کی طرف سے ایذاء رسانی کی شکل میں پہنچی اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کے بدلے میں ایک یسر یہ عطا فرمایا کہ شرح صدر کی دولت عطا فرمائی اور ایک یسر یہ عطا فرمایا کہ رفع ذکر کی دولت عطا کی۔
دین کے کام میں مشکلات آتی ہیں
لہٰذا جو دین کا کام کرنے والے لوگ ہیں ان کے راستے میں مشکلات آئیں گی۔یہ معمول چلا آرہا ہے ،حضرت انبیاء کرام علیہم الصلوٰة والسلام کی تاریخ جو قرآن میں بیان کی گئی ہے اور نبی اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کا جو ذکر یہاں آپ کے سامنے ہورہا ہے اس میں آپ دیکھ لیجئے کہ مشکلات پر ان بزرگوں نے کس پامردی اور ہمت و حوصلہ کے ساتھ غالب آنے کی کوشش کی اور اپنے صراط مستقیم کے سفر کو ترک نہیں کیا۔ اپنی سعی اور کوشش جودین کے لیے ضروری تھی اس کو برابر جاری رکھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں طرح طرح کی سہولتیں اور طرح طرح کی آسانیاں عطا فرمائیں۔نبی اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں آگئے۔ اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا ۔ مخلوقِ خدا کے لیے آپ کی دعوت قبول کرنے میں آسانیاں اور سہولتیں پیدا ہوگئیں اور جوق در جوق ، فوج در فوج لوگ اسلام کے دائرہ میں داخل ہوئے۔ یدخلون فی دین الله افواجا۔
اگر آپ استقامت کو اختیار نہ کرتے، اپنی سعی و کوشش کو جاری اور برقرار نہ رکھتے تو کیا یہ صورت ہوسکتی تھی؟ نہیں ۔ اس لیے مشکلات اگر پیش آئیں تو ان کو برداشت کرنا چاہئے اور صراط مستقیم کو نہیں چھوڑنا چاہئے۔ نبی پاک صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ صراط مستقیم پر چلو، اگر صراط مستقیم پر بالکل صحیح صحیح اور ٹھیک ٹھیک نہ چل پاؤ تو اس کے قریب رہنے کی کوشش کرو ۔ بر بنائے بشریت اگر کوتاہی اور غلطی ہوجائے تو استغفار کرلو، توبہ کر لو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ تمہاری غلطی کو معاف فرمادیں گے۔ لیکن صراط مستقیم پر چلنے کی سعی اور کوشش ضرور کرو اور یہ کوشش اگر جاری رہی تو انشاء الله پھر کامیابیاں بھی ہوں گی، آسانیاں بھی اور ہر طرح کی سہولتیں اور رعایتیں بھی اللہ تبارک و تعالیٰ عطا فرمائیں گے۔
اس کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْo وَاِلیٰ َربِّکَ فَارْغَبْo
جب آپ نبوت کے فرائض کی انجام دہی سے فارغ ہوجائیں اور امت کی تعلیم و تربیت کے مشاغل سے جب آپ کو فرصت ملے، ”فانصب“ تو آپ محنت کیجئے، اپنی شخضی عبادت کے لیے اور اپنا تعلّق اللہ تبارک و تعالیٰ سے مضبوط سے مضبوط تر اور مضبوط تر سے مضبوط ترین بنانے کے لیے کوشس کیجئے۔
وَاِلیٰ َربِّکَ فَارْغَب اور اپنی لَو اپنے رب سے لگائیں۔ یہ نہیں کہ تبلیغی مشاغل کو انجام دینے کے بعد اور دعوتی مہم کو پورا کرنے کے بعد پھر آپ بے فکر ہو کر بیٹھ جائیں۔ نہیں اپنے رب سے لو لگایئے۔ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں اپنی شخضی عبادت کے لیے اہتمام کیجئے۔ یہ سلسلہ بھی جاری رہنا چاہئے تاکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ تعلق کا سلسلہ پکا ہوتا چلا جائے۔ یہ بڑی ضروری بات ہے۔ یعنی دعوت و تبلیغ کا کام ہم نے کیااور دعوت و تبلیغ میں وقت لگانے کے بعد پھر ہم بالکل بے فکر ہو کر سو جائیں؟ نہیں۔ اس کے بعد ہمیں اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ اپنے انفرادی معاملے کو اور اپنے شخصی تعلّق کو مستحکم اور مضبوط کرنے کی سعی و کوشش جاری رکھنا چاہئے اور اپنے پروردگار سے لَو لگائے رکھنا چاہئے، یہ چیزیں گراں اور بار نہیں ہوتیں، بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ جب تعلّق صحیح اور استوار ہوجاتا ہے تو پھر اس کے بغیر چین نہیں آتا۔ اطمینان نہیں ہوتا۔ آدمی بے شک ادہر اجتماعی کام بھی انجام دیتا ہے اور اجتماعی کام انجام دینے کے بعد پھر اپنا تعلّق اللہ تبارک و تعالیٰ سے درست رکھتا ہے اور اس کو مستحکم اور مضبوط کرنے کے لیے انفرادی طور پر ذکر اور عبادت کا بھی اہتمام کرتا ہے اور آدمی اگر ایسا نہ کرے تو اس کو چین نہیں آتا، اس لیے یہ تصور نہ کیا جائے کہ طبیعت کے اوپر بوجھ پڑے گا اور گرانی ہو گی۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو زیادہ سے زیادہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے شرح صدر کی دولت ہمیں عطا فرمائے اور علم و عمل کے لیے حق سبحانہ و تعالیٰ ہمارے دلوں میں یقین اور اخلاص پیدا فرمائے۔
وآخردعوانا ان الحمدلله رب العالمین
و صلی الله تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد
وعلی آلہ واصحابہ اجمعین۔(آمین)