Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1432ھ

ہ رسالہ

12 - 18
ڈرون قتل عام ...مغرب کا ضمیر چیخ اُٹھا
محترم ثروت جمال اصمعی
پاکستان میں امریکی جاسوس طیاروں کے ذریعے جاری قتل عام کو بیرونی استعماری طاقتوں کے حضور سر تسلیم خم کیے رکھنے کے عادی پاکستانی حکمرانوں ہی نے نہیں، بلکہ شاید پاکستانی قوم کے بڑے حصے نے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا ہے ، مگر اس روز افزوں سفاکانہ کھیل پر خود مغرب کے باضمیر اہل قلم چیخ اٹھے ہیں ۔ برطانیہ کے ایک معروف رونامے سے وابستہ اور امریکی جرائد سمیت دوسرے کئی ممتاز مغربی اخبارات میں چھپنے والے برطانوی صحافی جوہان ہیری (Jhann Hari) کے یہ الفاظ ملاحظہ فرمائیے جو پاکستان میں جاری اس ظلم ودرندگی کے خلاف اہل مغرب کو جھنجوڑنے کے لیے انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں لکھے ہیں :

” ذرا سوچیے کہ اگر اب سے ایک گھنٹے بعد ایک روبوٹ جہاز آپ کے گھر کے اوپر جھپٹا مارے اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کردے۔ اس جہاز میں کوئی پائلٹ نہ ہو ۔ اسے ایک جادو کی چھڑی کے ذریعے سات ہزار میل دور پاکستان سے کنٹرول کیا جارہا ہو اور اسے پاکستانی فوج کی طرف سے آپ کو قتل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہو۔ آپ کی گلی میں واقع سارے گھروں میں اس حملے سے آگ لگ جائے۔ اس کے نتیجے میں آپ کا خاندان اور آپ کے پڑوسی اس طرح بھسم ہو جائیں کہ دفن کرنے کے لیے چند چبائے ہوئے سوختہ لقموں جیسے ملبے کے سوا کچھ باقی نہ بچے اور جب اس کارروائی کے ذمے داروں سے اس کی وجہ پوچھی جائے تو وہ کوئی تبصرہ کرنے، بلکہ یہ ماننے سے بھی انکار کر دیں کہ روبوٹ جہاز کا ان سے کوئی تعلق ہے ۔ لیکن دوسری طرف وہ پاکستانی اخبارات کو بتائیں کہ اس کارروائی کی وجہ یہ ہے کہ آپ میں سے ایک شخص پاکستان پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے ۔ اگر پوچھا جائے کہ انہیں اس کا پتہ کیسے چلا ؟ تو وہ کہیں کہ کسی نے ہمیں بتایا ہے ۔ وہ کون ہے ؟ یہ بات آپ نہیں جانتے۔ جب کہ روبوٹ کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہو سکتی ۔“

جوہان ہیری مزید لکھتے ہیں” اب ذرا یہ تصور کیجیے کہ یہ حملے یہاں ختم نہیں ہوتے، بلکہ آپ کے ملک میں ہر ہفتے کہیں نہ کہیں جاری ہیں ۔ وہ جنازوں ، گھریلو ضیافتوں اور بچوں کو جلا کر خاک کر رہے ہیں ۔ روبوٹ جہازوں کی تعداد ہر ہفتے بڑھتی چلی جارہی ہے ۔ آپ کو پتہ چلتا ہے کہ ان کے نام ”پریڈیٹر“ یا گرم ریپر کے نام پر ” ریپر“ ہیں ۔ آپ کتنی بھی وکالت کریں ،اس بات کو کتنا بھی واضح کریں کہ آپ ایک امن پسند شہری ہیں اور تمام جھگڑوں سے الگ رہتے ہوئے اپنی زندگی گزار رہے ہیں ، مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور یہ تباہ کن سلسلہ بند نہیں ہوتا۔ اس صورت میں آپ کیا کریں گے ؟ان حالات میں اگر کچھ لوگ یہ کہنا شروع کر دیں کہ پاکستان ایک شرپسند اور ملعون ملک ہے اور اس کا مستحق ہے کہ اس کے خلاف پرتشدد حملے کیے جائیں تو کیا اب آپ ان لوگوں کی بات سننا نہیں شروع کر دیں گے ؟ “

ڈرون حملوں کے حوالے سے امریکا کی جگہ پاکستان کو رکھ کر اس برطانوی صحافی نے جتنے مؤثر انداز میں مغربی ممالک کے لوگوں کو پاکستان کے شہریوں پر گزرنے والی قیامت اور اس کے نتیجے میں ان کے فطری رد عمل کا احساس دلایا ہے ، اس کے پیچھے انسانیت دوستی اور انصاف پسندی کے گہرے جذبات کی کار فرمائی صاف محسوس کی جاسکتی ہے ۔ ڈرون حملوں میں تیزی خصوصاً پاکستان پر سیلاب کی صورت میں ٹوٹنے والی آسمانی آفت کے بعد بھی اوباما حکومت کی طرف سے ایسی کارروائیوں کا بند نہ ہونا، بلکہ مزید بڑھا دیا جانا، متعدد مغربی اہل قلم کے لیے ناقابل برداشت ثابت ہوا ہے او رانہوں نے برملا اس سفاکی اور شقاوت کے خلاف آواز بلند کی ہے ۔ مثلاً ایک معروف امریکی صحافی کرس فلائیڈ ( Chris Floyd) پاکستان میں امریکی حکومت کے اس سرا سرناجائزقتل عام کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد آئندہ انتخابات کے حوالے سے امریکی شہریوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں ” کیا آپ ایک قاتل کو روکنے کے لیے دوسرے قاتل کی حمایت کریں گے؟جس نے بچوں کی خواب گاہوں میں جاگھسنے اور ان کے سروں سے بھیجے نکال دینے کا مشغلہ اختیار کر رکھا ہے… آپ کی اس حمایت کی بنیاد کیا ہو گی ، جواز کیا ہو گا ؟ کیا یہ کہ یہ قاتل زیادہ نفیس سوٹ پہنتا ہے ؟ زیادہ اچھا گاتا ہے ؟ مجالس میں زیادہ مہذب نظر آتا ہے ؟ سروں سے نکلے ہوئے بھیجوں کے پاس ایک چھوٹا سا خوب صورت پھول رکھ دیتا ہے ؟ “

ہمارے قبائلی علاقوں میں روبوٹ جہازوں سے جاری اس قتل عام پرمغرب کے حساس اہل قلم تو تڑپ اٹھے ہیں، مگر خود پاکستان کے اندر بے حسی کا مہیب سناٹا طاری ہے ۔ ہمارے حکمرانوں، سیاسی راہ نماؤں ، عوامی حلقوں، علمائے کرام، وکلاء برادری ، دانش وروں اور قلم کاروں، سب ہی نے عموماً اب اس معاملے میں تقریباً چپ سادھ لی ہے، بلکہ حکمرانوں کا رویہ تو احتجاج کے بجائے عملاً مکمل تعاون کا ہے ۔ حالاں کہ یہ حملے کھلی سفاکی ہیں ۔ اس ظلم کے خلاف پوری دنیا میں آواز اٹھانے کے لیے ہمارے پاس نہایت قوی دلائل موجود ہیں ۔ مثلاً انسداد دہشت گردی کے ماہر اورامریکی محکمہ خارجہ کے مشیر ڈیوڈ کلکولن (David Kilcullen) نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان میں امریکا کے ڈرون حملوں سے مرنے والوں میں صرف دو فی صد جہادی ہیں، جب کہ باقی98 فی صد نائن الیون کے ہلاک شدگان کی طرح عام معصوم شہری ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ” یہ رویہ غیر اخلاقی ہے۔“ اس کے معکوس نتائج کی نشان دہی وہ اس طرح کرتے ہیں ” ان مرنے والوں میں سے ہر فرد ایک مشتعل خاندان کی نمائندگی کرتا ہے ۔ ایسے خاندانوں سے عسکری تحریک کو مزید رنگروٹ دستیاب ہوتے ہیں۔ ڈرون حملوں کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے ۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو صورت حال خراب تر ہوتی چلی جائے گی ۔“ واضح رہے کہ باب وڈورڈز کی کتاب ”اوباما کی جنگیں“Obama's Wars میں انکشاف کیا گیاہے کہ اگر کبھی پاکستان سے امریکا میں کوئی جہادی کارروائی ہوئی تو امریکی حکومت نے پاکستان کے اندر فوری طور پر 150 اہداف پر حملے کا منصوبہ بنارکھا ہے۔

یہ انکشاف امریکی وزیر خارجہ مسز کلنٹن کی ان کھلی دھمکیوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہے جو وہ فیصل شہزاد کے واقعے کے بعد پاکستان کو دے چکی ہیں۔ امریکی حکمرانوں کے رویے سے بظاہر لگتا یہ ہے کہ وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کسی بہت بڑی کارروائی کا جو از تراشنے ہی کے لیے ڈرون حملوں کی تعداد مسلسل بڑھا کر پاکستانی شہریوں کو مشتعل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مغرب کی سامراجی طاقتیں صدیوں سے خطے میں اپنے استعماری عزائم کی تکمیل میں حائل افغانستان او رپاکستان کے ان ناقابل تسخیر قبائل کو تباہ وبرباد کر دینے او رغیر مؤثر بنادینے کی حسرت ناتمام میں مبتلا ہیں۔

اس حوالے سے اہم دستاویزی حقائق ریکارڈ پر ہیں ۔ تاہم اب ڈرون ٹیکنالوجی او رپاکستانی حکمرانوں کے بزدلانہ رویے نے انہیں ان عزائم کی تکمیل کے ایسے مواقع مہیا کر دیے ہیں ، جن کا چند برس پہلے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یہ خطرناک صورت حال پوری پاکستان قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔ اگر ان حملوں کو روکنے کے لیے، جن میں مرنے والے 98 فی صد معصوم شہری ہیں ، فوری طور پر جرات مندانہ اقدامات نہ کیے گئے او راقوام متحدہ سمیت تمام دست یاب عالمی فورموں پر اس معاملے کو اٹھا کر پاکستان کے لیے عالمی حمایت حاصل نہ کی گئی تو اس کا مطلب پاکستان میں عالمی استعمار کے مذموم عزائم کی تکمیل کی راہ ہموار کرنا ہو گا۔   (بشکریہ روزنامہ جنگ کراچی)  

Flag Counter